کھُلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(کے یو ای ٹی) میں ۲۸؍فروری تک تعلیمی سرگرمیاں بند۔طلبہ تنظیموں نےمسلح تصادم اور تشدد کی مذمت کی۔
EPAPER
Updated: February 20, 2025, 1:43 PM IST | Agency | Dhaka
کھُلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(کے یو ای ٹی) میں ۲۸؍فروری تک تعلیمی سرگرمیاں بند۔طلبہ تنظیموں نےمسلح تصادم اور تشدد کی مذمت کی۔
بنگلہ دیش کے تیسرے سب سے بڑے شہر کھُلنا کی کھُلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ( کے یو ای ٹی ) میں ۲۸؍ فروری تک تمام تعلیمی سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں۔ ڈھاکہ ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق پیر اورمنگل کو پھوٹ پڑنے والے تشدد کے بعدیہاں بدھ کو سینڈیکیٹ میٹنگ طلب کی گئی۔ کے یو ای ٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود نے کہا کہ’’ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تعلیمی سرگرمیاں بند کی جائیں۔ ہم نےطلبہ کے مطالبات منظور کئے، لیکن میرے استعفیٰ سمیت کچھ مطالبات کو مسترد کردیا گیا ہے۔ میٹنگ میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ کیمپس کو ہرقسم کی سیاسی سرگرمیوں سے پاک رکھا جائے۔ جو طالب علم یا یونیورسٹی عملہ خاطی پایا جائیگا، اسکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ‘‘
جگن ناتھ یونیورسٹی میں کے یو ای ٹی تشدد کے خلاف احتجاج
کے یو ای ٹی کے طلبہ پر ہونیوالے حملوں کی مذمت میں جگن ناتھ یونیورسٹی میں احتجاج کیا گیا۔ یہاں طلبہ کی تنظیم’جگن ناتھ یونیورسٹی ہیومن رائٹس سوسائٹی‘ کی جانب سے انسانی زنجیر بنائی گئی۔ بدھ کی دوپہر ڈیڑھ بجے جگن ناتھ یونیورسٹی میں شانتو چھتر کے احاطے میں طلبہ جمع ہوئے۔ طلبہ تنظیم کے جنرل سیکریٹری جنید مسعود نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ کہا کہ’’ہم طلبہ پر ہونیوالے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، سیاست سے پاک کیمپس ہر طالب علم کا پیدائشی حق ہے۔ کے یو ای ٹی میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے طلبہ پر حملہ کیا گیا، یہ انسانی حقو ق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ‘‘
کے یو ای ٹی میں کیا ہوا؟
کے یو ای ٹی کیمپس میں جھڑپوں کے دوران۱۵۰؍ سے زائد طالب علم زخمی ہوگئے۔ ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے یوتھ ونگ نے جنوب مغربی شہر میں کھلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبہ کی رکنیت سازی کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں ’اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنٹ‘ کے اراکین کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہو گئی، جھڑپوں میں وہ احتجاجی گروپ بھی شامل تھا، جس نے گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ کو معزول کرنے والی بغاوت کی قیادت کی تھی۔
کھلنا کے پولیس افسر کبیر حسین نے بتایا کہ جھڑپ کے بعد کم از کم۵۰؍ افراد کو علاج کیلئے لے جایا گیا، صورت حال اب قابو میں ہے اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ کمیونی کیشن کے طالب علم زاہد الرحمٰن نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ اسپتا ل میں داخل ہونے والے افراد اینٹوں اور تیز دھار ہتھیاروں سے زخمی ہوئے، جبکہ۱۰۰؍ کے قریب افراد کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ فیس بک پر تشدد کی فوٹیج بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھیں، ان فوٹیج میں متحارب گروپوں کو چاقو اور چھریاں پکڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ زخمی طلبہ کو علاج کیلئے اسپتال لے جایا جا رہا ہے۔
طلبہ کی ایک دوسرے پر الزام تراشی
بی این پی اسٹوڈنٹ ونگ کے سربراہ ناصر الدین ناصر نے اسلامی سیاسی جماعت کے اراکین پر الزام عائد کیا کہ وہ تصادم پر مجبور کرنے کے لئے حالات کو بھڑکا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کے کارکنوں نے یہ غیر ضروری تصادم پیدا کیا، مقامی طالب علم عبید اللہ نے بتایا کہ بی این پی نے کیمپس کی جانب سے قائم سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے پاک رہنے کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے، کیمپس میں جماعت کی کوئی موجودگی نہیں۔ اس واقعے نے ملک کے دیگر حصوں میں طلبا میں غم و غصے کو بھڑکا دیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں بی این پی کے یوتھ ونگ کی مذمت میں منگل کی رات احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ نے گزشتہ سال مظاہروں کا آغاز کیا تھا، جس میں بنگلہ دیش کی سابق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔