اپنے پسندیدہ اُمیدوار کی فتح کے جشن سے پہلے اپنے علاقوں اور حلقوں میں کوشش کیجئے اور زیادہ سے زیادہ پولنگ کا جشن آج ہی منالیجئے
EPAPER
Updated: November 19, 2024, 11:13 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اپنے پسندیدہ اُمیدوار کی فتح کے جشن سے پہلے اپنے علاقوں اور حلقوں میں کوشش کیجئے اور زیادہ سے زیادہ پولنگ کا جشن آج ہی منالیجئے
پندرہ اکتوبر کو جب نئی دہلی میں چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا تھا، تب ریاست ِ مہاراشٹر کی پولنگ کی تاریخ بہت دور لگ رہی تھی مگر، جیسا کہ اب ہونے لگا ہے، وقت اتنی تیزی سے گزر جاتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہوتی، ۱۵؍ اکتوبر سے ۲۰؍ نومبر تک کا وقت کیسے گزرا، پتہ ہی نہیں چلا۔ دیکھتے دیکھتے پولنگ کا دن آگیا ، آج کا دن۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن سے لے کر ۲۰۲۴ء کے الیکشن تک کا پانچ سالہ عرصہ کیسے گزرا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ راتوں رات حکومت بدلی اور صبح صبح حلف برداری ہوئی، آپ نیند سے جاگے تو نئے وزیر اعلیٰ تشریف لا چکے تھے، پھر ایک پارٹی ٹوٹی اور اراکین اسمبلی آسام لے جائے گئے، پھر دوسری پارٹی ٹوٹی ا ور سابق نائب وزیر اعلیٰ کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔ان پانچ برسو ںمیں چار مرتبہ حلف برداری کی تقریب کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔
یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ اہل سیاست یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اس کا کوئی خیال یا ملال نہیں کرینگے۔ چاہے خفیہ حلف برداری کا معاملہ ہو جو ماضی میں غالباً کبھی اور کہیں نہیںہوا، یا اراکین اسمبلی کو ’’بہکانے‘‘ اور ’’خریدنے‘‘ کا، پارٹیاں توڑنے کا ہو یا حکومتیں بدلنے کا، مذکورہ بالا واقعات کی مثال ہمیشہ دی جائیگی جسے کسی بھی زاویئے سے کارنامہ نہیں کہا جاسکتا۔ ایسی سرگرمیاں جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہیں مگر چونکہ عوام کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اسلئے وہ صرف تماشا دیکھتے ہیں۔ اُن کے اختیار کا ایک ہی دن ہوتا ہے۔ پولنگ کا دن۔
ایسے دور میں جب جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش اور کوشش جاری ہو، اسے مستحکم کرنے کا عوامی اختیار اگر ۴۰، ۵۰ یا ۶۰؍ فیصد لوگ ہی بروئے کار لائیں تو اُتنا فائدہ نہیں ہوسکتا جتنا ۸۰؍ یا ۹۰؍ فیصد کے بروئے کار لانے سے ہوسکتا ہے۔ اس سے عوامی بیداری ثا بت ہوگی جو اہل سیاست میں حساسیت پیدا کرے گی اور وہ عوام کے بارے میں یہ نظریہ قائم کرنے سے ڈریں گے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں، وہ کچھ نہیں کہتے، ہم حکومتیں بدلیں یا پارٹیاں توڑیں۔
زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کا ایک تو یہ فائدہ ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس سے بحیثیت شہری جمہوریت کے فروغ میں حصہ داری کا احساس تقویت پاتا ہے۔ اس سے جمہوری توانائی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائیے جب اُنگلی پر ووٹنگ کا نشان لگتا ہے تو خوشی ہوتی ہے یا نہیں؟ پھر اس نشان کو دکھلاتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنا ووٹ دینے کے بعد یا اس کے ساتھ آپ جتنے رائے دہندگان کو ووٹنگ کی طرف مائل کرنے، اُن کی مدد کرنے اور اُنہیں سہولت بہم پہنچانے کی فکر کرتے ہیں اُتنا خود کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ ایک ذمہ داری شہری ہیں۔ اس عمل کے ذریعہ آپ دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا خاموش مشورہ دیتے ہیں تاکہ یہ کارِ خیر دوسرے بھی اپنائیں۔ اگر آپ کے توجہ دلانے اور مدد کرنے کی وجہ سے پانچ افراد ووٹ دینے جائیں تو آپ یہ سوچ کر خوش ہونے کے حقدار ہونگے کہ آپ نے چھ ووٹوں کا انتظام کیا ہے۔ جتنے ووٹ آپ نے دِلوائے اُن میں اپنا ووٹ جوڑ کر خود کو اطمینان دلائیے کہ اس الیکشن میں میرا اِسکور اِتنا رہا۔
اس الیکشن میں بہت انتشار ہے۔ اتنی ساری پارٹیاں، اتنے سارے اُمیدوار، ایسے میں وہ سیکولر اُمیدوار جو جیت سکتا ہو اور جس کے بارے میں اندازہ ہو کہ اسے دوسرے بھی ووٹ دینگے او رجو بعد میں بھی سیکولر طاقتوں کے ساتھ ہی رہے گا، اُسے اپنا ووٹ بھی دے دیجئے کہ انتشار میں اتحاد کا نقشہ اسی طرح بن سکتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ پولنگ کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص ضروریات سے فراغت کے بعد اپنے دن کا آغاز ہی ووٹ دینے سے کرے۔ بعد میں جائینگے، دوپہر کے بعد دیکھیں گے، ابھی تو رش ہوگا، پڑوسی نے بتایا کہ اُسے ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا (جبکہ وہ تکنیکی بنیاد پر تھا یا کوئی اور وجہ تھی) اَب مَیں کیوں اپنا وقت ضائع کروں جیسے ہر خیال کو مسترد کرتے ہوئے سیدھے پولنگ بوتھ کا رُخ کیجئے۔ کسی سے یہ کہنے کی بجائے کہ فلاں کو ووٹ دینے نہیں دیا گیا، خود ووٹ دے کر اُنگلی کا نشان اپنے ہر شناسا کو دکھائیے، اسٹیٹس پر لگائیے یا واٹس ایپ پر بھیجئے تاکہ غلط بات عام ہونے کے بجائے صحیح بات عام ہو۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات تو فکر کرلیتے ہیں مگر خواتین گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے وقت نہیں نکال پاتیں۔ یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو وقت نکالنے پر آمادہ کریں اور ممکن ہو تو اُن کی مدد کریں اور اُن کی ووٹنگ کیلئے سہولت پیدا کریں۔ سہولت آمدورفت کیلئے بھی پیدا کی جاسکتی ہے اور پولنگ بوتھ تک ساتھ جاکر اُنہیں اعتماد دلانے کے ذریعہ بھی۔
ووٹنگ کیلئے جلدی نکلنے کا پروگرام بنائیں تو اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کوئی دقت یا دشواری پیش آئی تو شام تک آپ کے پاس بہت وقت ہوگا اُس دشواری کو دو رکرنے کا۔ اس سے ووٹنگ یقینی ہوجائیگی۔ آخری ایک آدھ گھنٹے میں بھاگ دوڑ ممکن نہیں ہوسکتی۔ ووٹ ضائع ہونے کا اندیشہ بڑھ جائیگا۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ ایک اُن کے دوٹ نہ دینے سے کیا ہوگا، اُنہیں سوچنا چاہئے کہ قطرہ قطرہ ہی دریا ہوتا ہے۔ اگر تین سو ووٹرس نے سوچا کہ ایک اُن کے ووٹ نہ دینے سے کیا ہوگا اور اُن کا پسندیدہ یا ایک اچھا اُمیدوار ۲۸۰؍ ووٹوں سے ہار گیا تو اس کی ہار کے ذمہ دار کیا یہی تین سو لوگ نہیں ہوں گے؟یاد کیجئےحالیہ لوک سبھا الیکشن میں شیو سینا (اُدھو) کے اُمیدوار امول کیرتیکر ۴۸؍ ووٹ سے ہارے ہیں۔
اس الیکشن میں سیکولر اور غیر سیکولر میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع نہیں ہے کیونکہ سیکولر بمقابلہ سیکولر بمقابلہ سیکولر بمقابلہ غیر سیکولر کا نقشہ صاف دکھائی دے رہا ہے اس لئے اپنے ووٹ کیلئے صحیح اُمیدوار کا انتخاب کرتے وقت ان باتو ںکو ذہن میں رکھئے: کون جیت سکتا ہے، کون جیتنے کے بعد سیکولر محاذ کے ساتھ رہ سکتا ہے، کون عوامی نمائندگی کے تئیں سنجیدہ ہے، کون اپنے جذبۂ عمل کے سبب کھڑا ہے اور کون کسی دوسرے کی ایماء پر یا کسی دوسرے کا کھیل خراب کرنے کیلئے کھڑا ہے۔ آپ کا دل ان سوالوں کے جواب دے دے گا، پس وہ جس کسی اُمیدوار کی تائید کرے، آپ اُسی کو ووٹ دیں۔ یہ ہے ضمیر کی آواز پر حکمت کے ساتھ ووٹ دینا۔ آپ کے نمائندہ کے پاس آپ کا کام کرنے نہ کرنے کا اختیار پانچ سال تک رہتا ہے مگر آپ کے پاس اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا وقت صرف گیارہ گھنٹے ہے (صبح ۷؍ سے شام ۶؍ بجے تک)۔ اس لئے جلدی کیجئے۔