ملزمین پر یو اے پی اے عائد کرنے کے بعد اے ٹی ایس بھی جانچ میں شامل ، دونوں اس سے پہلے بھی اشتعال انگیز حرکت کر چکے ہیں، جلیٹن فراہم کرنے والوں کی تلاش۔
EPAPER
Updated: April 08, 2025, 9:46 AM IST | Beed
ملزمین پر یو اے پی اے عائد کرنے کے بعد اے ٹی ایس بھی جانچ میں شامل ، دونوں اس سے پہلے بھی اشتعال انگیز حرکت کر چکے ہیں، جلیٹن فراہم کرنے والوں کی تلاش۔
عید سے ایک روز قبل بیڑ ضلع کے گیورائے تعلقہ میں واقع اردھا ماسلہ گائوں کی ایک مسجد میں دھماکہ کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں ۲؍ ملزمین کو گرفتار کیا تھا جن کا ویڈیو وائرل ہوا تھا۔ ۲؍ روز قبل پولیس نے اے ٹی ایس کی رضامندی کے بعد ان دونوں پر ان لاء فل ایکٹیویٹی پریونشن ایکٹ ( یو اے پی اے) کے تحت معاملہ درج کر لیاتھا۔ یاد رہے کہ ملزمین کی گرفتاری کے بعد ہی سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اتنے سنگین جرم میں ملوث افراد پر یو اے پی اے عائد کیا جائے ۔ البتہ ضلع ایس پی کا کہنا تھا کہ یو اے پی اے لگانے کیلئے اے ٹی ایس کی جانچ اور حکومت کی رضامندی ضروری ہے۔ اب جبکہ یو اے پی اے عائد ہو چکا ہے اے ٹی ایس بھی اس جانچ میں شامل ہو گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمین ہندوتوا وادی لیڈران کی نفرت آمیز تقاریر سے متاثر تھے۔ اسی جنون میں انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ بیڑ جو گزشتہ کئی ماہ سے غیر قانونی سرگرمیوں اور سنگین جرائم کے سبب سرخیوں میں ہے، ۳۰؍ مارچ کو اس وقت دہل گیا تھا جب ضلع کے گیورائے تعلقے میں واقع اردھا ماسلہ گائوں کی ایک مسجد میں ۲؍ نوجوانوں نے جلیٹن کی مدد سے دھماکہ کیا تھا۔ خیر سے اس دھماکے میں کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔ البتہ مسجد کے اندرونی حصے کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ پولیس نے جلد ہی وجے رام گوہانے (۲۲) اور شری رام سگڑے (۲۴) نامی دو نوجوانوںکو گرفتار کیا تھا۔ ان دونوں نے خود ہی دھماکے سے قبل اپنا ویڈیو شوٹ کیا تھا جس میں وہ گالیاں دیتے اور اشتعال انگیز باتیں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ ہی وہ جلیٹن کی چھڑی پر آگ لگا رہے تھے۔ اس ویڈیو کو دونوں نے خود ہی سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا تھا۔ عید سے ایک روز قبل ہوئے اس دھماکے کے سبب بیڑ میں ایک بار پھر ماحول خراب ہو سکتا تھا لیکن پولیس نے فوری طور پر دونوں ملزمین کو گرفتار کر لیا اور انہیں عدالت میں پیش کیا۔ ان پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا لیکن یو اے پی اے نہیں لگایا گیا تھا۔ حالانکہ یو اے پی اے قانون منظور ہی اسلئے کیا گیا تھاکہ سنگین جرائم خاص کر دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔ مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمین پر یو اے پی اے عائد کیا جائے۔ بالآخر سنیچر کے روز اے ٹی ایس کی رپورٹ کے بعد ان پر یو اے پی اے عائد کیا گیا۔ فی الحال پولیس ان لوگوں کی تلاش کر رہی ہے جنہوں نے ملزمین کو دھماکہ خیز اشیا فراہم کی تھیں۔ اس تعلق سے کچھ لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے حالانکہ ان کے نام ظاہر نہیں کئے گئے ہیں۔ ان سے معلوم کیا جا رہا ہے کہ کس مقصد کے تحت ملزمین کو یہ دھماکہ خیز اشیا ء فراہم کی گئی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمین پہلے بھی اشتعال انگیز حرکت کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب عرس کے دوران مسلمانوں کا جلوس گزر رہا تھا تو ان میں سے ایک نے وہاں نعرے لگائے تھے اور گالی گلوج کی تھی جس پر جلوس کے ذمہ داروں نے اس کی سرزنش کی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ ہندوتوا وادی لیڈروں کی تقاریر اور ’ مسجد میں گھس کر ماریں گے ‘ جیسی باتوں کا ان پر کافی اثر تھا۔ اسی جوش میں انہوں نے مسجد میں گھس کر دھماکہ کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ پولیس کو اب تک اس معاملے میں کوئی سیاسی پہلو یا کسی تنظیم سے ان دونوں ملزمین کا تعلق نہیں ملا ہے۔ یا د رہے کہ دھماکے کے فوراً بعد ہی کہا گیا تھا کہ یہ ہندوتوا وادی لیڈران کی منافرت آمیز تقاریر کا نتیجہ ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین ( ایم آئی ایم ) کے قومی ترجمان وارث پٹھان نے کہا تھاکہ ’’ ان لوگوں کو اس حرکت پر کس نے اکسایا تھا؟ وہ بی جے پی لیڈران کی ان نفرت انگیز تقاریر سے متاثر تھے جو وہ آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ان لوگوں پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کرے اور ان کا مقدمہ فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلائے۔ ‘‘ ساتھ ہی ان کا مطالبہ تھا کہ ’’ان بی جے پی لیڈران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جو آئے دن اس طرح کی بے معنی تقاریر کرتے رہتے ہیں۔ اسی صورت میں اس طرح کے جرائم پر قابو پایا جا سکے گا ورنہ نہیں۔‘‘
مہاراشٹر اقلیتی کمیشن نے بھی بیڑ کے ضلع کلکٹر اور ایس پی سے ملزمین پر یو اے پی اے عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ریاستی اقلیتی کمیشن کے رکن وسیم برہان نے ایک وفد کے ساتھ گزشتہ دنوں بیڑ کے اردھا ماسلہ گائوں کی مکہ مسجد کا دورہ کیا تھا اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد بیڑ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نونیت کانوت سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ملزمین پر یو اے پی اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔