• Sat, 09 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انتخابات سے قبل ’’دور درشن‘‘ نے اپنا لوگو زعفرانی کرلیا، چوطرفہ تنقیدیں

Updated: April 18, 2024, 7:00 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

لوک سبھا انتخاب کے دوران ہندوستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نشریاتی ادارے پرسار بھارتی نے دوردرشن کے ہندی اور انگریزی دونوں چینلز کے لوگو اور حروف کے رنگ تبدیل کر کے زعفرانی کر دیا ہے۔ اس کے بعد سے ادارے پر چو طرفہ تنقید ہورہی ہے، خاص طور پر انتخابات سے قبل ایسا فیصلہ کرنے پر۔ چینل پر پہلے ہی بی جے پی کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام ہے۔

Prasar Bharti`s new logo. Image: X
پرسار بھارتی کا نیا لوگو۔ تصویر: ایکس

ہندوستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نشریاتی ادارے پرسار بھارتی نے دوردرشن کے ہندی اور انگریزی دونوں چینلز کے لوگو اور حرفی رنگوں کو زعفران میں تبدیل کر دیا ہے۔نیا لوگو منگل کی صبح ۱۲؍بجے سے باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا ہے۔قبل ازیں لوگو پیلے اور نیلے رنگ کا ہوتا تھا۔ لوگو کے ساتھ چینل کی اسکریننگ کا رنگ بھی زعفرانی کیا گیا ہے۔
موجودہ تبدیلی پر دوردرشن نےبیان جاری کیا ہے جو ڈی ڈی نیوز کے سرکاری اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے جس کا کیپشن ہے ’’ہماری اقدار وہی ہیں، اب ہم ایک نئے اوتار میں دستیاب ہیں۔ خبروں کے ایسے سفر کیلئے تیار ہو جائیں جس کا تجربہ آپ نے پہلے کبھی بھی نہیں کیا۔ نئی ڈی ڈی نیوز کا تجربہ کریں۔‘‘

پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’ اب دوردرشن درست اور دیانت دار خبریں لا رہا ہے۔‘‘ ڈی ڈی نیوز کے ڈائریکٹر جنرل نے پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ وہ سچائی اور حوصلے کی صحافت ایک نئے انداز اور احساس کے ساتھ کر رہےہیں۔
لوگو اور متن کے رنگوں میں ردوبدل پر مختلف حلقوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ عین انتخابات کے وقت اپوزیشن نے اس عمل پر سوالیہ نشان عائد کیا ہے اور اسی کے ساتھ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ’’دوردرشن کی خبروں کےکوریج اور پروگرامنگ میں حکمراں پارٹی کے تئیںنرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اس سے قبل، دوردرشن نریندر مودی اور مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے انٹرویو کو نشر کرنے پر تنازعات میں گھرگیا تھا۔پرسار بھارتی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جبکہ غیر سرکاری طور پر، الیکشن کمیشن نے بھی اشارہ دیا تھا کہ  پرسار بھارتی کو انٹرویو نشر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK