پرینکا گاندھی کو یو پی کی ذمہ داری سے راحت،سچن پائلٹ کو چھتیس گڑھ کا چارج دیا،چدمبرم کی صدارت میں مینی فیسٹو کمیٹی بھی تشکیل، پارٹی کی حکمت عملی بھی تیارکی گئی۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 8:39 AM IST | Agency | New Delhi
پرینکا گاندھی کو یو پی کی ذمہ داری سے راحت،سچن پائلٹ کو چھتیس گڑھ کا چارج دیا،چدمبرم کی صدارت میں مینی فیسٹو کمیٹی بھی تشکیل، پارٹی کی حکمت عملی بھی تیارکی گئی۔
کانگریس نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات سےقبل کئی ریاستوں کے انچارج تبدیل کئے ہیں۔ کچھ لیڈروں کو نئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ پرینکا گاندھی واڈرا کو یوپی کانگریس انچارج کے عہدے سےہٹا دیا گیا ہے، حالانکہ وہ جنرل سکریٹری ہی رہیں گی۔ پرینکا کی جگہ اویناش پانڈے کو یوپی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔دوسری طرف سچن پائلٹ چھتیس گڑھ کانگریس کے انچارج بن گئے ہیں۔ سچن پائلٹ کی تقرری کو انہیں پرسکون کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو پارٹی میں ایک بڑا کردار چاہتے ہیں۔ پارٹی کی راجستھان قیادت سےپائلٹ کے عدم اطمینان کی وجہ سے کانگریس کو۲۰۲۰ءیں صحرائی ریاست میں نقصان اٹھانا پڑا، جب ناراض لیڈرجو اس وقت ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ تھے، نے اشوک گہلوت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ سچن کے علاوہ رمیش چنی تھلا کو مہاراشٹر، دیویندر یادو کو پنجاب اور رندیپ سرجے والا کو کرناٹک کا چارج ملا ہے۔
جے رام رمیش کو کانگریس کاترجمان بنایا گیا ہے۔ پارٹی کےجنرل سیکریٹری مکل واسنک اور مانیک راؤ ٹھاکرے کو گوا کی ذمہ داری دی گئی ہے۔جی ایس میر کو جھارکھنڈ کا جنرل سکریٹری انچارج بنایا گیا ہے، انہیں مغربی بنگال کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔دیپا داس منشی کو تلنگانہ کا اضافی چارج کے ساتھ کیرالہ اور لکش دیپ کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا ہے۔
پارٹی نے ۳؍ریاستوں میں غیر معمولی کارکردگی کے بعد راجستھان اور چھتیس گڑھ کے سربراہوں کو برقرار رکھا۔ تاہم، مدھیہ پردیش میں، سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کو او بی سی لیڈر جیتو پٹواری کے ساتھ کانگریس کی ریاستی یونٹ کا سربراہ بنا یاہے۔
اس کے علاوہ مکل واسنک کو گجرات، جتیندر سنگھ آسام کو مدھیہ پردیش، رندیپ سرجے والا کرناٹک، کماری سیلجا اتراکھنڈ، جب کہ دیپا داسمنشی کو کیرالہ، لکشدیپ اور تلنگانہ کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔بہار میں پارٹی نے موہن پرکاش کو ریاستی انچارج مقرر کیا ہے۔پرکاش کے لالو یادو اور نتیش کمار دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔وہ ایک سوشلسٹ ہیں جو جنتا دل کا حصہ رہے ہیں۔
میگھالیہ، میزورم اور اروناچل پردیش کا اضافی چارج ڈاکٹر چیلا کمار کو۔اڈیشہ،تمل ناڈو اور پڈوچیری ڈاکٹر اجوئےکمار کے حصے میں آیات تو جموں کشمیر بھرت سنگھ سولنکی کو، ہماچل پردیش اور چندی گڑھ سے راجیو شکلا کو،راجستھان کو سکھ جندر سنگھ رندھاواکو، پنجاب دیویندریادوکو،گوا، دمن اور دیو اور دادرا اور نگر حویلی سے مانیکراؤ ٹھاکرےکو دیا گیا۔تریپورہ، سکم، منی پور اور ناگالینڈگریش چودنکرم کو دیا گیا آندھرا پردیش، انڈمان اور نکوبار مانیکم ٹیگورکو ملا ہے۔
یہ تقرریاں کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی میٹنگ کے ۲؍ دن بعد ہوئی ہیں، جو پارٹی کااعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ ہے، جس کی صدارت پارٹی سربراہ ملکارجن کھرگےکررہے ہیں۔ اس میں سونیا گاندھی اور راہل سمیت سینئر لیڈروں نے شرکت کی۔کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے سنیچر کو اس بیان پر دستخط کیے جس میں ریاستی فرائض میں ردوبدل کیا گیا تھا۔
منشورکمیٹی بھی تشکیل دی گئی، چدمبرم بطور چیئرمین
سنیچ ہی کوکانگریس نےلوک سبھا انتخابات کیلئےمینی فیسٹو کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔سابق مرکزی وزیر اور پارٹی کے سینئر لیڈر پی چدمبرم کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ کے سابق نائب وزیراعلی ٹی ایس سنگھ دیو اس کمیٹی کے کنوینر ہوں گے۔ اس ۱۶؍رکنی کمیٹی میں پرینکا گاندھی واڈرا، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا، جے رام رمیش اور ششی تھرور بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی ہے۔ اس کےمطابق عوام کو مودی حکومت کے قول و فعل میں فرق بتایا جائے گا۔
منشور کمیٹی میں سابق مرکزی وزیر آنند شرما، منی پور کے سابق ڈپٹی وزیراعلیٰ گائی کھنگم، لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈرگورو گوگوئی، آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس کے سربراہ پروین چکرورتی، عمران پرتاپ گڑھی، کے راجو، اومکارسنگھ مارکم، رنجیت رنجن، جگنیش میوانی اور گرودیپ شامل ہیں۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں شکست کے بعدکانگریس کی نظریں ۲۰۲۴ءکےلوک سبھا انتخابات پر ہیں۔ پارٹی نے جمعرات ۲۱؍ دسمبرکو کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی)کی میٹنگ بلائی تھی، جس میں لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ایک دن بعد،۲۲؍دسمبر کو، کانگریس نے مینی فیسٹو کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔
مودی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بنائی گئی
سی ڈبلیو سی کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس میںکہا گیا’’پارٹی مودی حکومت کی کمزوریوں کو بے نقاب کرےگی۔ وزیر اعظم مودی کے دعوؤں اور زمینی حقیقت میں بہت فرق ہے۔سماجی پولرائزیشن بہت زیادہ ہو چکی ہے اور اسے الیکشن جیتنے کیلئےاستعمال کیا جا رہا ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ جمہوریت منہدم ہو چکی ہے۔ جمہوریت خود حملے کی زد میں ہے اور آئین کے تحت شہریوں کو دی گئی آزادی چھین لی گئی ہے۔ ان مسائل پر بات ہونی چاہیے۔