فلسطین کے مغربی کنارہ کے شہر بیت لحم جو حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش ہے ، مسلسل دوسرے سال کرسمس کی رونقیں غائب ہیں، جس کی وجہ غزہ جنگ ہے، جس کے سبب سیاحوں کی آمد بند ہے۔ یہاں مقیم عیسائی خاندانوں کے کاروبار ٹھپ پڑچکے ہیں، اور یہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
مغربی کنارہ میں واقع بیت الحم حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش۔ تصویر: آئی این این
فلسطین کے مغربی کنارہ میں واقع بیت لحم میں مسلسل دوسرے سال بھی کرسمس کی رونقیں غائب ہیں، جس کی وجہ اسرائیل کے ذریعے مسلط کی گئی غزہ جنگ ہے، جس کے سبب سیاحوں کی آمد بند ہے، اور جو یہاں موجود ہیں وہ بھی اس علاقے کو چھوڑ کر جانے کیلئے کوشاں ہیں۔چرچ آف دی نیٹیویٹی کے سامنے بیت لحم کا مینجر اسکوائر بڑی حد تک ویران ہے اور سووینئر کی دکانیں بند ہیں۔عیسی تھلجیہ جو ایک آرتھوڈوکس پادری اور نیٹیویٹی چرچ کے نگراں ہیں، انہوں نے کہا کہ’’ ایک بار پھر، قدیم بستی میں روایتی کرسمس ٹری لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے اور اب اسرائیل اس شہر پر قابض ہے۔ان مشکل وقتوں کے دوران جن سے ہمارے فلسطینی شہری گزر رہے ہیں، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں، خوشی اور مسرت کی کوئی علامت ظاہر کرنا مشکل ہے،سیاحوں کی آمد نہ ہونے سے یہاں کے خاندانوں کی مالی حالت خستہ ہو گئی ہے۔ اور ان کی نقل مکانی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ۱۹۴۷ءمیں اس خطے پر برطانوی حکمرانی کے آخری سال میں، بیت لحم کی تقریباً ۸۵؍فیصد آبادی عیسائی تھی۔ ۲۰۱۷ءکی مردم شماری کے مطابق، بیت لحم کی مجموعی آبادی ۲؍ لاکھ ۱۵؍ ہزار ، ۵؍ سو ۱۴؍ تھی جن میں محض۲۳۰۰۰؍عیسائی تھے جو ۱۰؍فیصد کے قریب ہے۔اسرائیل نے پورے علاقے میں یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں،جنہیں زیادہ تر ممالک غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل زمین سے تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے جائز ٹہراتا ہے۔ مغربی کنارہ گزشتہ دو سالوں کے دوران یہودی بستیوں کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے تبدیل ہو گیا ہے، جس میں سخت گیر آباد کار اس علاقے پر اسرائیلی خودمختاری مسلط کرنے پربضد ہیں۔