آج وقف ٹریبونل میں شنوائی، مسجد کی حفاظت کی کوشش، ٹرسٹیان نے ڈیولپر سے مسجد کی منتقلی کا معاہدہ کیا تھا مگر اسکے ذریعے ایسی جگہ دینے کا علم ہوا جو ڈی پی میں روڈ کٹنگ میں دکھائی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 1:49 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
آج وقف ٹریبونل میں شنوائی، مسجد کی حفاظت کی کوشش، ٹرسٹیان نے ڈیولپر سے مسجد کی منتقلی کا معاہدہ کیا تھا مگر اسکے ذریعے ایسی جگہ دینے کا علم ہوا جو ڈی پی میں روڈ کٹنگ میں دکھائی گئی ہے۔
انجمن خدام ملت اہلسنت والجماعت نور محمدی سنّی مسجد ، سیئٹ ٹائر کمپنی سے متصل سبھاش روڈ، بھانڈوپ مشرق میں واقع ہے۔ اس کے انہدام پر وقتی روک لگا دی گئی ہے۔ آج پیر کے دن وقف ٹریبونل میں اس معاملے کی شنوائی ہوگی، اسٹے آرڈر بھی ٹریبونل نے ہی دیا ہے۔
اس علاقے میں ۲۰۱۷ء سے ایس آر اے کے تحت ڈیولپمنٹ جاری ہے۔ اسی لحاظ سے ۲۴؍ستمبر ۲۰۲۴ءکو اس مسجد کو شہید کیا جانا تھا اور ایس آر اے عملہ اس کی پوری تیاری بھی کرچکا تھا مگر بر وقت قانونی کارروائی اور وقف بورڈ سے رجوع ہونے پر روک لگ گئی۔ حالانکہ پہلے ایس آر اے نے وقف بورڈ کے اسٹے کو ہی ماننے سے انکار کردیا تھا مگر جب ایس آر اے کے لیگل ڈپارٹمنٹ کو وہ آرڈر بھیجا گیا تو اس نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ افسران سے یہ بھی کہا کہ اسے نہ ماننا توہین عدالت ہوگا اور اس کے سبب قانونی پیچیدگی بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ سے ۱۹۷۴ءمیں قائم کردہ مذکورہ مسجد وقتی طور پر محفوظ ہے مگر اس کی مستقل حفاظت پر بہرحال سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تعلق سے ٹرسٹیان نے ڈیولپر سے مسجد کی منتقلی کیلئے معاہدہ کیا تھا مگر جب اس کی تفصیلات معلوم کی گئیں تو پتہ چلا کہ ڈیولپر نے بڑی چالاکی بلکہ دھوکے سے مسجد کو ایسی جگہ منتقل کرنے کے لئے جگہ دی ہے جو ڈیولپمنٹ پلان کے تحت روڈ کٹنگ میں دکھائی گئی ہے۔ یہ معلوم ہونے پر ہنگامہ مچ گیا اور کچھ ذمہ داران نے بھانڈوپ سنی مسجد قبرستان کے ٹرسٹی حبیب خان سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے کافی بھاگ دوڑ کی جس کا نتیجہ وقتی طور پر روک کی صورت میں برآمد ہوا۔
مسجد نور محمدی کے صدر شبیر احمد سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات کی توثیق کی اور بتایا کہ اب اس معاملے میں حبیب خان کو آگے رکھا جارہا ہے۔ شنوائی کے لئے ہم لوگ اورنگ آباد وقف ٹریبونل جارہے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ کے گھر کی حفاظت ہوگی اور مسجد کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔
حبیب خان نے نمائندۂ انقلاب کو مذکورہ بالا تفصیلات کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ جب مجھے حالات کا علم ہوا تو میں نے فوری طور پر ایڈوکیٹ نثار خان اور ایڈوکیٹ محمد یوسف (کرلا) سے صلاح ومشورہ کیا گیا اور وزیراعلیٰ شندے، نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار، پولیس اور بی ایم سی کمشنر، ایس آر اے اور ایس آر اے کے لیگل ڈپارٹمنٹ کو شکایتی مکتوب بھیجا گیا۔ اس کے ساتھ ہی باندرہ میں نائب تحصیلدار جنہوں نے انہدامی کارروائی کا آرڈر دیا تھا، ان سے ملاقات کی اور یہ پوچھا کہ کس بنیاد پر مسجد توڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ مسجد غیر قانونی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہا کہ اس معاملے میں پیچیدگی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ٹرسٹیان نے ڈیولپر سے معاہدہ کرلیا تھا۔ جب اس تعلق سے ایڈوکیٹ یوسف سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ غلطی تو ہوئی ہے مگر گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، دوسرا قانونی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ڈیولپر کے ذریعے منتقلی کے نام پر روڈ کٹنگ کی جگہ دینے کی بنیاد پر پہلے کئے گئے معاہدے کو باطل کرنے کے لئے ٹرسٹیان کے بیان کی بنیاد پر ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی۔ اسی اثناء میں ڈیولپر کی جانب سے وقف ٹرینونل کے آرڈر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس پر مذکورہ ایڈوکیٹ نے مسجد ٹرسٹ کی جانب سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ۲۷؍ستمبر کو بحث میں حصہ لیا اور عدالت کو حقیقت سے آگاہ کرایا۔ اس پر بامبے ہائی کورٹ نے وقف ٹرینونل کا اسٹے آرڈر برقرار رکھا اور ڈیولپر کے وکیل کو ٹرینوبل جانے کا حکم دیا۔
اب یہ دیکھنا کافی اہم ہوگا کہ آج ٹریبونل کی جانب سے کیا حکم دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مسجد میں معمول کے مطابق پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کی جارہی ہے اور قانونی معاملات کے تئیں کوشش جاری ہے کہ مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اگر منتقلی بھی ہوتی ہے تو تمام ضابطوں کی مکمل خانہ پری کے بعد ہی ہو تاکہ مستقبل میں کسی قسم کا اندیشہ نہ رہے۔