Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھیونڈی: ۲۸۹؍ عمارتیں انتہائی مخدوش قرار دی گئیں

Updated: April 14, 2025, 11:28 AM IST | khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi

بھیونڈی میونسپل کارپوریشن نے انتہائی مخدوش اور مخدوش عمارتوں کی فہرست جاری کرکےانہیں فوری طور پر خالی کرنے کا حکم دیا۔

A dilapidated building in Bhiwandi. Photo: INN.
بھیونڈی میں واقع ایک مخدوش عمارت۔ تصویر: آئی این این۔

تیز بارش کے سبب مخدوش عمارتوں کے منہدم ہونے کے خدشے کے پیش نظرمیونسپل انتظامیہ کی جانب سے شہر کی مخدوش اور انتہائی مخدوش عمارتوں کی فہرست جاری کرنے کے ساتھ ہی نوٹس بھی جاری کر اس میں رہنے والے لوگوں کوانتباہ دیا ہے کہ وہ ایسی عمارتوں کو فوری طور پر خالی کر دیں۔ میونسپل انتظامیہ نے ان خطرناک عمارتوں کے مکینوں کو خبردار کیا ہے کہ ایسی مخدوش اور انتہائی مخدوش عمارتوں کے منہدم سے ہونے والی جانی اور مالی نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ 
واضح رہےکہ بلدیہ عظمیٰ کے دائرہ کار میں واقع خطرناک عمارتیں شہری انتظامیہ کے لئے ایک سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بارہا انتباہ جاری کئے جانے کے باوجود ہزاروں خاندان ایسی عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں جو کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتی ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے شہر ترقیاتی افسر اروند گھوگری کے مطابق سی۔ ون زمرے میں انتہائی خطرناک عمارتوں کی تعداد ۲۸۹؍ہے جنہیں فوری طور پر منہدم کرنے کی ضرورت ہے۔ سی۔ ۲ (اے )میں ۷۳۸؍عمارتیں شامل ہیں جنہیں خالی کرکے مرمت کی جانی چاہیے۔ سی ۔ ۲(بی) میں ۳۷۲؍ عمارتیں وہ ہیں جن میں رہتے ہوئے مرمت ممکن ہے جبکہ سی۔ ۳؍ زمرے میں ۴۵؍ عمارتیں کو معمولی مرمت درکار ہے۔ 
یاد رہے کہ گزشتہ برس ۴۹؍خطرناک عمارتوں کو منہدم کیا گیا تھا، تاہم حالیہ ۳؍ مہینوں میں یہ کارروائی سست روی کا شکار ہو گئی ہے۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ عمارتوں کو خالی کرانے کا سلسلہ عنقریب تیز کیا جائے گا۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع مخدوش عمارتوں میں ہزاروں افراد آباد ہیں جن کی باز آباد کاری کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہی سبب ہے ان مخدوش اور انتہائی مخدوش عمارتوں میں لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر رہنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ۷؍ برسوں کے دوران خطرناک عمارتوں کے گرنے سے ۹۰؍سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے، انتظامیہ کی جانب سے اس سنگین مسئلے پر خاطر خواہ اقدام نظر نہیں آ رہے۔ 
ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے 
ماہرین کے مطابق مخدوش عمارتوں کو خالی نہ کرنے کی اہم وجہ میونسپل انتظامیہ کے پاس باز آباد کاری کا کوئی ٹھوس اور مؤثر منصوبہ بندی نہ ہونا ہے۔ خطرناک عمارتوں کے زیادہ تر باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس رہائش کے لئے کوئی متبادل اور مناسب جگہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنا مکان خالی کر دیں گے تو جائیں گے کہاں ؟ لہٰذا خطرناک عمارتوں میں رہ رہے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کرنے سے پہلے انتظامیہ کو سب سے پہلے ان کی بحالی کیلئے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ تبھی اس مسئلہ کا قابل قدر حل نکل سکتا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خطرناک عمارتوں کو خالی کرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ مالکانہ حق کے علاوہ کارپوریٹر اور زمین مافیا ہیں۔ بہت سی خطرناک عمارتوں کے کرایہ داروں اور مالکان کے درمیان باہمی تنازع کے سبب معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے۔ مکینوں کی جان و مال کی حفاظت کی واقعی انتظامیہ کو فکر لاحق ہے تو پہلے ان کی بازآبادکاری کا انتظام کیا جائے۔ ایسا کرنے سے مکین خود ہی اپنے مخدوش مکا ن خالی کرنے کی لئے راضی ہو جائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK