آج نام واپس نہ لینے کی صورت میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 04, 2024, 11:47 AM IST | khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi
آج نام واپس نہ لینے کی صورت میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہاں شہری علاقوں کی مغربی اور مشرقی اسمبلی حلقوں سے نام واپس لینے کی آخری تاریخ (۴؍ نومبر)تک اگر کچھ اُمیدواروں نے اپنے نام واپس نہیں لئے تو مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کے امیدواروں کو اپنے ہی اتحادی پارٹی کے باغیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے مہاوکاس اگھاڑی کے ذریعہ نامزد امیدواروں کو شدید نقصان کا اندیشہ لاحق ہے۔ تاہم انتخابی منظر نامہ کی اصل تصویر کاغذات نامزدگی کی واپسی کے بعد ہی واضح ہوسکے گی۔ مغربی اسمبلی حلقہ سے ایم وی اے کی جانب سے دیہی کانگریس کے لیڈر دیانند چورگھے کو اپنااُمیدوار بنایا ہے۔ کانگریس کی انتخابی فہرست جاری ہونے سے قبل اگھاڑی کے ٹکٹ کے سب سے مضبوط دعوے دار سابق میئر ولاس پاٹل کو بتایا جارہا تھا۔ پارٹی کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کے بعد انہوں نے’لڑیں گے اور جیتیں گے‘ کا نعرہ بلند کرکے بھرپور طاقت کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کردیاہے۔ میونسپل کارپوریشن کی سیاست کے’ چانکیہ‘ کے طور پر مشہور ولاس پاٹل کی مضبوط پکڑ کارپوریٹرس، میونسپل اہلکاروں اور ٹھیکیداروں پر ہے۔ ولاس پاٹل شیواجی چوک، اجے نگر، کومبڑ پاڑا، نذرانہ ٹاکیز، نظامپورہ، ونجار پٹی ناکہ، مہاڈا کالونی، بندر محلہ، کھاڑی پار وشہر کے متعدد علاقوں کے ہندو اورمسلم رائے دہندگان میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
اسی حلقہ سے سماج وادی پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ریاض اعظمی بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ ریاض اعظمی رائے دہندگان کے سامنے مسلم اُمیدوار کے متبادل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئیں ہیں۔ ایم وی اے کی جانب سے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہ دینے کی ناراضگی کا فائدہ ریاض اعظمی کو مل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماج وادی پارٹی کیلئے بھیونڈی کی زمین ہمیشہ ہی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں پارٹی وجود میں آئی اور ۱۹۹۵ء کے اسمبلی انتخاب میں اس کے ٹکٹ پر محمد علی خان رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۹ء میں پارٹی کا امیدوار تیسرے نمبر رہا تو ۲۰۰۴ء میں ابو عاصم اعظمی ۷۸؍ ہزار ۴۶۷؍ ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ ۲۰۰۹ء میں بھیونڈی اسمبلی حلقہ کو ۳؍حصوں بھیونڈی مغرب، بھیونڈی مشرق اور بھیونڈی دیہات میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس اسمبلی انتخاب میں مشرق اور مغرب کے دونوں شہری علاقوں پر سماج وادی پارٹی نے قبضہ کر لیا تھا۔ ولاس پاٹل اورریاض اعظمی اگر انتخابی میدان میں ڈٹے رہیں گے تو مہاوکاس اگھاڑی کے اُمیدوار دیانند چورگھے کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مشرقی اسمبلی حلقہ میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ مشرقی اسمبلی حلقہ میں ایم وی اے نے سماج وادی پارٹی کے موجودہ رکن اسمبلی رئیس شیخ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ رئیس شیخ نے طاقت کا بھرپورمظاہرہ کرتے ہوئے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ تاہم اگھاڑی کی اہم اتحادی جماعت شیو سینا (ادھو) پارٹی کے سابق رکن اسمبلی اور بھیونڈی لوک سبھا رابطہ سربراہ روپیش مہاترے نے پارٹی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ روپیش مہاترے کے حامی الیکشن لڑنے پربضدہیں جس کے سبب مشرقی حلقہ پر بھی ایم وی اے کو اپنے ہی اتحادی پارٹیوں کے امیدواروں سے کڑی ٹکر ملنے کی توقع ہے۔
ایم آئی ایم بھی ۲؍خیموں میں تقسیم
مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم )نے آخری وقت میں مغربی حلقہ سے بائیکلہ کے سابق رکن اسمبلی وارث پٹھان کواپنا اُمیدوار بنایا ہے۔ اسی حلقہ سے ایم آئی ایم کے صدر محمد خالد مختار شیخ گڈو کو جب پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ بھی آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں ہیں جس سے پارٹی ۲؍خیموں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ خالد گڈوکے باغیانہ تیور ایم آئی ایم کے اُمیدوار کو نقصان پہنچا سکتےہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ مرتبہ خالد گڈو کو یہاں سے ۴۳؍ ہزار ۹۴۵؍ ووٹ ملے تھے۔