بھیونڈی:شہر کا واحد میناتائی ٹھاکرے آڈیٹوریم گزشتہ۴؍برس سے بند ہے جس کی مرمت کے معاملے پرسیاست دانوں اور میونسپل انتظامیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ یقین دہانی کرائی گئی ہے ،
EPAPER
Updated: August 07, 2021, 2:13 AM IST | khalid abdul Qayyum | Mumbai
بھیونڈی:شہر کا واحد میناتائی ٹھاکرے آڈیٹوریم گزشتہ۴؍برس سے بند ہے جس کی مرمت کے معاملے پرسیاست دانوں اور میونسپل انتظامیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ یقین دہانی کرائی گئی ہے ،
بھیونڈی:شہر کا واحد میناتائی ٹھاکرے آڈیٹوریم گزشتہ۴؍برس سے بند ہے جس کی مرمت کے معاملے پرسیاست دانوں اور میونسپل انتظامیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ یقین دہانی کرائی گئی ہے ، اس کے باوجود شہر کے اس واحد کلچرل ہال کی مرمت شروع نہیں کی جاسکی ہے۔اس آڈیٹوریم کو ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی والدہ سے منسوب ہونے کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔شہریوں کا الزام ہے کہ انتظامیہ اور سیاستداںاس آڈیٹوریم کی بدحالی دور کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیںورنہ اس کی مرمت کیلئے چند کروڑ کی رقم منظور کرانامشکل کام نہیں ہے۔سماجی تنظیم ’آپریشن مکت بھیونڈی‘ کے مطابق آڈیٹوریم کے بند ہونے سے طلبہ،ادباء اورشعراءکے ساتھ ہی فنکاروں اور شہریوں کا زبردست نقصان ہورہاہے۔تنظیم اس کی مرمت کیلئے وزراء اور افسران کے ساتھ خط وکتابت اور ذاتی طور پر رابطے میں ہے۔
واضح رہےکہ شہر کے قلب میں واقع بازار پیٹھ میں ۱۹۹۶ءمیں میونسپلٹی کی جانب سے تقریباًڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرکے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار نشستوں والا شہر کا پہلا آڈیٹوریم بنایا گیاتھا۔اس آڈیٹوریم میں جنریٹراورایئر کنڈیشنڈ کی سہولت کے ساتھ ہی اعلیٰ معیار کا ساؤنڈ سسٹم،بہترین قسم کی کرسیاں،میک اپ روم،بیک اسٹیج روم،فنکاروں اور مہمانوںکے قیام کیلئے علاحدہ علاحدہ کئی کمرے اوراسٹیج پر بہترین لائٹس اور پردوںکے سبب اُس وقت یہ آڈیٹوریم نہ صرف بھیونڈی بلکہ اطراف میں کئی کلومیٹر کے دائرے میں آباددیہی علاقوں میں اپنی نوعیت کا مثالی اور منفرد آڈیٹوریم کہا جاسکتا تھا۔
اس بہترین آڈیٹوریم کو بال ٹھاکرے کی اہلیہ مینا تائی ٹھاکرے سے منسوب کیا ہےجس کاافتتاح یکم مارچ ۱۹۹۶ء میں اس وقت کے تھانے ضلع کے نگراں اور کابینی وزیر برائے جنگلات و ماحولیات گنیش نائک کے ہاتھوں ہوا تھا۔اس افتتاحی تقریب میں ریاستی وزیر برائے ایکسائزو ٹوریزم جگن ناتھ پاٹل،وزیر برائے محنت صابر شیخ،شہری ترقیات کے وزیر اروند مانے اور تھانے ضلع شیوسینا پُرمکھ آنند دیگھے موجود تھے۔ اس وقت سماج وادی پارٹی کے محمد علی خان رکن اسمبلی،صدر بلدیہ مدن کرشنا ئک،نائب صدر بلدیہ زیبا جاوید دلوی،ٹاؤن پلاننگ کے چیئرمین رفیع الزماں لالہ اور چیف آفیسر سمپت راؤ شندے،میونسپل انجینئر ایم آئی دامودرن اور سائٹ انجینئرشان علی سید تھے۔آڈیٹوریم کے آرکیٹیک اتول چمبور کر اینڈ اسوسیٹس،آر سی سی کنسلٹنٹ نائک کنسلٹنٹ اور چندہ فرنیچر،جے ڈی الیکٹریکلس،بلو اسٹار کمپنی،جنور جی دیو کی ، ایس آر سنگھ اور پین ورکرس ٹکنو فائر آڈیٹوریم کےٹھیکیدار تھے۔
افتتاح کے بعدسے ہی اس کلچرل ہال میں تعلیمی تقریبات، کانفرنس، کلچرل پروگرام،اسکولوں کی سالانہ تقریبات ،دینی پروگرام، مشاعرے غرض کے سبھی قسم کی پروگراموں کے ساتھ ہی سرکاری اور نیم سرکاری تقریبات بھی یہاں منعقد کی جارہی تھیں۔اس کے چند برسوں بعد میونسپلٹی میونسپل کارپوریشن میں تبدیل ہوگئی تھی۔
شہریوں نے الزام عائد کیاہے کہ چند نااہل سیاستداں اور بدعنوان افسران نے اپنے ذاتی فائدے کیلئے شہر کے دیگر اہم اثاثوں کی طرح ہی اس کلچرل ہال کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ آڈیٹوریم کی مرمت کا کام کاغذوں میں ہوتا رہا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ چند برسوں بعد یہاں کی کرسیاں ٹوٹنا شروع ہوگئی۔ اسٹیج کی لائٹ ایک ایک کرکے خراب ہونے لگے، پردے بوسیدہ ہوکر پھٹ گئے،ساؤنڈ سسٹم خراب ہوگیا۔دیواروں پر رنگ و روغن نہ ہونے کے سبب وہ خراب ہوگئے۔جنریٹراور ایئرکنڈیشن مرمت اور سروسنگ نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حال ہوکر بند ہوگئے۔ صاف صفائی اور نگہداشت کے فقدان کے سبب باتھ روم کے دروازے ، کھڑکیاں ٹوٹنے لگے،نلوں میں پانی نہ آنے کے سبب باتھ روم میں بدبو پھیلنی شروع ہوگئی جو بعد میں اس قدر زیادہ ہوگئی کہ ہال کے اندر بھی بدبو سے لوگ پریشان ہوگئے۔میک اپ روم اور مہمانوں و فنکاروں کے کمروں کے شیشے،لائٹ،وہاں کی کرسیاں اورٹیبل مخدوش ہوکر ٹوٹ گئے۔
جنوری ۲۰۱۷ء میں ایک حادثہ کے بعدمیونسپل کارپوریشن نے آڈیٹوریم کے اسٹرکچرل آڈٹ اور مرمت کا کام مکمل ہونے تک سبھی بکنگ کو منسوخ کرتے ہوئے اس ہال کو بندکردیا۔۴؍برس کے بعد عالم یہ ہے کہ یہ شاندار آڈیٹوریم دھیرے دھیرے کھنڈر میں تبدیل ہوتا جارہا
ہے۔ یہاں تک کہ اس کے داخلی دروازے پر پودے اُگ آئے ہیںلیکن وہاںمیونسپل کارپوریشن کادفتر ہونے کے باوجود بھی اہلکار اسے صاف کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ شیوسینا سپریمو کی اہلیہ مینا تائی ٹھاکرے سے منسوب یہ کلچرل ہال اس وقت بند ہوا جب مشرقی حلقہ میںشیوسینا لیڈر روپیش مہاترے کورکن اسمبلی منتخب ہوئے۸؍برس گزر چکے تھے۔شیوسینا کے میئر تشار چودھری شہری انتظامیہ کے سربراہ تھے۔تھانے ضلع کے نگراں وزیرشیوسینا کے طاقتور لیڈر ایکناتھ شندے تھے اور ریاست میں شیوسینا- بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی۔
سماجی تنظیم ’آپریشن مکت بھیونڈی ‘کے صدر ڈاکٹر شفیق صدیقی نے انقلاب کو بتایا کہ کلچرل ہال بند ہونے کے بعد ادبی، سیاسی، سماجی، تعلیمی، دینی،ثقافتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں بیشتر اسکولوں میں آڈیٹوریم نہیں ہے جس کے سبب اسکولوں کے تعلیمی پروگرام یہاں منعقد کئے جاتے تھے، وہ بند ہوگئےجس سے طلبہ کا سب سے زیادہ نقصان ہونے لگا۔انہوں نے مزیدکہا کہ موجودہ وقت میں ریاست میں شیوسینا کی قیادت والی حکومت ہے۔وزیر اعلیٰ ادھو ٹھا کرے کی والدہ کے نام سے منسوب اس آڈیٹوریم کی تزئین کاری کیلئے وہ مسلسل وزراء اور افسران کے رابطے میں ہیں۔ڈاکٹرشفیق صدیقی کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور کابینی وزیر آدتیہ ٹھاکرے کو عرضداشت روانہ کرکے انہیں اس آڈیٹوریم سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ حال وزیر اعلیٰ کی والدہ اور کابینی وزیر کی دادی کے نام سے منسوب آڈیٹوریم کا ہے جو مرمت کے نام پر ۴؍ برس سے بند ہے۔انہوں نے اس آڈیٹوریم کی فوری مرمت پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔