تنظیم نے اپنی رپورٹ میں نوٹ کیا کہ طاقتور افراد کی سیاست نے ۱۹۸۴؍ کے بھوپال گیس سانحہ کے غریب، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں سےتعلق رکھنے والے متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 7:52 PM IST | New Delhi
تنظیم نے اپنی رپورٹ میں نوٹ کیا کہ طاقتور افراد کی سیاست نے ۱۹۸۴؍ کے بھوپال گیس سانحہ کے غریب، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں سےتعلق رکھنے والے متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا کی بدترین صنعتی آفات میں شمار کئے جانے والے بھوپال گیس سانحہ کی ۴۰؍ ویں برسی کے موقع پر کہا کہ ہندوستانی حکومت، گزشتہ چار دہائیوں میں،گیس سانحہ کے متاثرین کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام کرنےمیں ناکام رہی ہے۔تنظیم کے مطابق، حکومت کے سرمایہ داروں کی طرف جھکائو اور نچلے طبقہ کے تئیں امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
یاد رہے کہ۴۰؍ سال قبل، ۲؍ دسمبر ۱۹۸۴ء کی نصف شب کے قریب، بھوپال میں کیڑے مار دوا کے پلانٹ سے تقریباً ۴۰؍ ٹن مہلک میتھائل آئوسیانیٹ گیس (ایم آئی سی)کے اخراجکے باعثقریبی علاقوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد فوری طور پر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ پلانٹ، اس وقت ایک امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کارپوریشن (یوسی سی) کی ملکیت تھا۔ گیس کے براہ راست اثرات سے اموات کا سلسلہ۴؍ دہائیوں بعد بھی جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس حادثہ کے باعث اب تک ۲۲؍ ہزار سےزائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ۵۰؍ ہزار سے زائد افرادمختلف مرائض کا شکار ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد ، دائمی بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں جن میں تولیدی صحت پر ایم آئی سی کے بین نسلی اثرات اور کیمیکلز سے آلودہ ہوچکے پانی کے اثرات شامل ہیں۔اس حادثہ کے بعد بھوپال، امریکی اور ہندوستانی حکام کے لئے`قربانی زون بن چکا ہے جہاں، ایمنسٹی انٹرنیشل کے مطابق، کئی نسلوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۵؍لاکھ افراد مشکلات کا شکار ہیں۔ہزاروں ٹن زہریلا فضلہ آج بھی لاوارث پلانٹ کے اندر اور اس کے آس پاس دفن ہے جو پانی کو آلودہ کرتا رہتا ہے ۔ مقامی باشندوں کی صحت پراس کےتباہ کن نتائج نمایاں ہیں۔
مکتوب میڈیا کے مطابق، ایمنسٹی انٹرنیشنلنے کہا کہ گزشتہ ۴۰؍ برسوں میں نتاثرین کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ طاقتور افراد کی سیاست نے کم آمدنی والے، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں سےتعلق رکھنے والے متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کو مشکل بنادیا ہے۔ دریں اثنا،مجرم امریکی کمپنیاں، شرمناک طور پر انسانی حقوق کی اپنی واضح ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتی رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کے سربراہ مارک ڈمیٹ نے کہا کہ کارپوریٹ لاپرواہی کے اس گھناؤنے جرم کے تمام ذمہ داروں کا احتساب کرنے میں ہندوستانی اور امریکی حکام کی ناکامی، سراسر ایک دھوکہ ہے۔انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیم نے مشاہدہ کیا کہ ۱۹۸۹ء میںیو سی سی نے حکومت ہند کے ساتھ مکمل طور پر غیر منصفانہ اور ناکافی معاوضہ کا معاہدہکیا تھاجسے بھوپال کے متاثرین سے مشورہ لئے بغیر قبول کرلیا گیا تھا۔ امریکی حکومت کی طرف سے لابنگ اور دباؤ نے بھی تباہی کے ذمہ دار امریکی شہری اور کمپنیوں کے صاف بچ نکلنے کو یقینی بنایا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شیئر ہولڈرز سے کہا کہ وہ ڈاؤ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کریں ۔اگر کیمیکل کمپنی تمام زندہ بچ جانے والوں کے لئےمناسب معاوضے اور آلودگی کی تشخیص اور صفائی کے ذریعے مصائب کا ازالہ کرنے کے لئےبامعنی اور تیز رفتار کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے اپنی سرمایہ کاری واپس لینے پر غور کریں۔تنظیمنے ہندوستانی حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ متاثرین کی جانب سے امریکی کمپنی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کوشش جاری رکھے اور ان لوگوں کی مدد کرے جوحادثہ کی وجہ سے اب بھی مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔