۲۰۲۰ء کے تلخ تجربے کو بھلادیا، تب ٹرمپ الیکشن ہارے تھے تو انہوں نے بائیڈن کو مدعو نہیں کیا تھا اورنہ ہی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 11:02 AM IST | Washington
۲۰۲۰ء کے تلخ تجربے کو بھلادیا، تب ٹرمپ الیکشن ہارے تھے تو انہوں نے بائیڈن کو مدعو نہیں کیا تھا اورنہ ہی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
رخصت پزیر امریکی صدر جو بائیڈن نے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کی جیت پر مبارکباد دینے کے لئے فون کیا اور انتظامیہ کی تبدیلی پر بات چیت کیلئے وہائٹ ہاؤس میں مدعو کیا ہے۔ حالانکہ پچھلی بار جب ٹرمپ الیکشن ہارے تھے اوربائیڈن اقتدار میں آئے تھے تو ٹرمپ نے اس عمل سےگریز کیا تھا۔ ٹرمپ کے ترجمان اسٹیون چیونگ نے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا ’’نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ جلد ہی ہونے والی ملاقات کے منتظر ہیں اور انہوں نے اس فون کال کی پزیرائی کی ہے۔ ‘‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے روایت سے ہٹ کر۲۰۲۰ء کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد بائیڈن کو یہ دعوت نہیں دی تھی۔ صدر عام طور پرنئی انتظامیہ کو وہائٹ ہاؤس میں مدعو کرتے ہیں، نارتھ پورٹیکو کی سیڑھیوں پر نومنتخب صدر کا استقبال کرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ افتتاحی تقریب کیلئے یو ایس کیپٹل جاتے ہیں، جس میں ٹرمپ نے۲۰۲۱ء میں شرکت نہیں کی تھی۔
اقتدار کی منتقلی کب اور کیسے ہوگی؟
نومنتخب صدر ٹرمپ۲۰؍ جنوری۲۰۲۵ء کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔ تقریب حلف برداری سے پہلے پہلے امریکی صدارتی انتخابات کے تمام معاملات۱۷؍ دسمبر تک طے ہو جائیں گے۔ نومبر میں منتخب ہونے کے باوجود انہیں جنوری تک انتظار کیوں کرنا ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکی آئین کی رو سے اقتدار کی منتقلی کا عمل ۱۱؍ہفتوں کے دورانیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس میں رخصت پزیر صدراور اس کی انتظامیہ مرحلہ وار طریقے سے نومنتخب صدر اور ان کی انتظامیہ کو اقتدار منتقل کرتے ہیں۔ امریکی آئین کی ۲۰؍ویں ترمیم کے مطابق نومنتخب صدر اور نائب صدر کی مدت کار ۲۰؍جنوری سے شروع ہوتی ہے۔ اسے امریکہ میں ’اِنوگریشن سیریمنی(افتتاحی تقریب) ‘ کہا جاتا ہے، جوہر چار سال میں نومبر کے مہینے میں انتخابات ہونے کے بعد ۲۰؍ جنوری کوواشنگٹن ڈی سی میں واقع کیپٹل ہل میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس تقریب کی منصوبہ بندی جوائنٹ کانگریشنل کمیٹی کرتی ہے۔ اس میں نومنتخب صدر کی حلف برداری عمل میں آتی ہے، وہ امریکی آئین کی دفعہ دو سیکشن فرسٹ کی روسےرازداری کا حلف لیتا ہے۔ اسکے بعد نومنتخب صدر کا خطاب ہوتا ہے اور رخصت پزیر صدر اظہار خیال کرتا ہے۔ اس دن نئے صدر کے اعزاز میں افتتاحی پریڈ بھی ہوتی ہے۔
انتخابی نتائج کو تسلیم کیا جانا چاہیے: کملا ہیرس
امریکی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے بدھ کو واشنگٹن ڈی سی میں ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک مختصر تقریر کی، جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں اس مہم پر فخر ہے۔ انہوں نے تقریباً۱۵؍ منٹ تک تقریب سے خطاب کیا اور زور دے کر کہا کہ’’جب ہم الیکشن ہارتے ہیں تو ہم نتائج کو قبول کرتے ہیں۔ ‘‘کملا ہیرس اپنے مادرعلمی (الما میٹر) میں کی جانے والی تقریر میں کئی بار جذباتی بھی ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’جس مقابلے میں ہم دوڑے اور جس طرح سے دوڑے اس پر مجھے بہت فخر ہے۔ اس مہم کے۱۰۷؍دن، کمیونٹی کی تعمیر اور اتحاد بنانے، زندگی کے ہر شعبے اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک ساتھ لانے، پیار سے متحد کرنے کے بارے میں رہے ہیں۔ یہ ملک امریکہ کے مستقبل کیلئے ہماری لڑائی میں جوش اور خوشی کے ساتھ ہمارے ساتھ ہے اور ہم یہ اس علم کے ساتھ کیا کہ ہم سب میں بہت کچھ مشترک ہے جو ہمیں الگ کرتا ہے۔ ‘‘کملا ہیرس نے کہا ’’اگرچہ میں اس انتخاب کے نتائج کو قبول کرتی ہوں اور اپنی ہار تسلیم کرتی ہوں، لیکن میں اپنی اس لڑائی کو جاری رکھوں گی، جس نے اس مہم کو آگے بڑھایا ہے۔ کبھی کبھی لڑائی جیتنے میں کچھ زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جیتیں گے نہیں۔ ‘‘اپنی تقریر میں کملا ہیرس نے اسقاط حمل، بندوق سے تشدد اور مساوی انصاف جیسے ڈیموکریٹس کے لیے اہم امور پر روشنی ڈالی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ہم ووٹنگ بوتھ، عدالتوں اور عوامی چوراہوں پر اس لڑائی کو جاری رکھیں گے۔ کملا ہیرس نے انتخابات میں کامیابی پر ڈونالڈ ٹرمپ کو فون کر کے مبارک باد دی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کاملا ہیرس کے قریبی معاونین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دورانِ گفتگو کملا ہیرس نے اقتدار کی پرامن منتقلی اور تمام امریکیوں کا صدر بننے کی اہمیت پر زور دیا۔ سابق صدراور ڈیموکریٹ لیڈر بارک اوباما نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر بننے کی مبارکباد پیش کی ہے۔ اوباما نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ `ظاہر ہے انتخابات کا نتیجہ وہ نہیں ہے جس کی ہمیں امید تھی۔ تاہم جمہوریت میں رہنے کا مطلب ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ہمارا نقطہ نظر ہمیشہ کامیاب نہیں ہوگا اور ہمیں پرامن اقتدار کی منتقلی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ `‘‘اوباما نے نائب صدر کملا ہیرس اور ٹم والز کی کوششوں پر بھی فخر کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں نے قابل ذکر انتخابی مہم چلائی ہے۔
ٹرمپ کے اثاثوں میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ
ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہوتے ہی بدھ کو ان کی سوشل میڈیا کمپنی ٹروتھ سوشل کی مالیت میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ’ٹروتھ‘ کی سرپرست کمپنی ’ٹرمپ میڈیا اینڈ ٹیکنالوجی گروپ‘ کے شیئرز میں تیزی درج کی گئی۔ ٹرمپ میڈیا کا اسٹاک جو’ڈی جے ٹی‘نام سے امریکی شیئربازار میں درج ہے، کی مالیت میں پری مارکیٹ ٹریڈنگ میں ۳۵؍ فیصد کا اضافہ ہوا جس کے بعد اسکی مالیت۹؍ارب ڈالر ہوگئی۔ بدھ کو اس شیئر کی قیمت ۳۵ء۹۶؍ڈالر پر تھی۔ ٹرمپ اس کمپنی میں سب سےزیادہ حصص رکھتے ہیں جس کی آمدنی بہت کم ہے۔