• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بی جے پی کی جیت ہیراپھیری کا نتیجہ

Updated: August 04, 2024, 11:05 AM IST | New Delhi

کانگریس کا الزام ۔ سندیپ دکشت نے پریس کانفرنس میں کہاکہ کمیشن کو ای وی ایم پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہئے۔

Congress leader Sandeep Dixit addressing the press conference. Photo: INN
کانگریس لیڈر سندیپ دکشت پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے۔ تصویر : آئی این این

کانگریس  نے ای وی ایم میں گڑبڑسے متعلق ایک تجزیاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن پر تنقید کی اور اس سلسلے میں وضاحت طلب کی  ہے۔اس کے مطابق بی جےپی کی ۲۰۲۴ء کی جیت ہیرا پھیری کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلے میں کانگریس لیڈر سندیپ دکشت نے سنیچر کو پارٹی ہیڈکوارٹرز میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ الیکشن کمیشن ای وی ایم کے نتائج کے بارے میں کسی بھی قسم کے شکوک کو مسترد کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی جاسکتی ہے لیکن حالیہ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی اور آخری انتخابی نتائج میں فرق ملا ہے جو ای وی ایم پر سوال کھڑے کرتا ہے۔
انہوں  نے بی جے پی پرحالیہ پارلیمانی انتخابات ۲۰۲۴ء میں  پولنگ کے اعداد وشمار میں ہیراپھیری کے ذریعہ ۷۹؍سیٹیں جیتنے کا سنگین الزام عائد کیا ہے۔  دکشت نے کہا کہ ’ووٹ فار ڈیموکریسی‘نامی ایک تنظیم نے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر ایک تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ کے مطابق ابتدائی مرحلے میں اعلان کردہ اعداد و شمار اور آخری مرحلے میں حتمی اعداد و شمار میں فرق ہے۔ قومی سطح پر ابتدائی اور حتمی اعداد و شمار میں ۶؍ فیصد کا فرق ہے تو کیا یہ نتائج درست تھے؟
 انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے ہر مرحلے کے حتمی اعداد و شمار کئی دن بعد دیئے۔ ا یسا  اس وقت ہو ا  ہےجب کہا جاتا ہے کہ ای وی ایم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، ای وی ایم کے ذریعے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ای وی ایم سے ووٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہر دو گھنٹے بعد یہ ڈیٹا الیکشن کمیشن کو بھیجنا پڑتا ہے کہ بوتھ پر کتنی ووٹنگ ہوئی ہے؟ اگر ہم ریاستی سطح پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حیرت انگیز طور پر آندھرا پردیش اور ادیشہ میں ۱۲ء۵؍ فیصد ووٹ بڑھ جاتا ہے۔اتفاق سے ادیشہ اور آندھرا پردیش میں بی جے پی اور اس کے اتحاد نے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ای وی ایم کے اس دور میں اگر اعداد و شمار میں اتنا فرق ہے تو اس سے پورے انتخابی عمل پر سوال اٹھتے ہیں۔
دکشت کے مطابق اس بارے میں جب الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا تو کمیشن نے جواب دیاکہ انٹرنیٹ جیسے مسائل کی وجہ سے مکمل معلومات نہیں دے سکتے تھےلیکن الیکشن کمیشن نے ایک اور ڈیٹا جاری کیا تھا جس کا جواب ہی ان پر سوال کھڑے کرتا ہے۔
   ان کے مطابق الیکشن کمیشن نے کہا کہ ۲۰۱۹ء میں بھی ہم کچھ مراحل میں تاخیر سے ڈیٹا فراہم کرسکے تھے لیکن اس وقت بھی ۷؍ بجے جاری ہونے والے ڈیٹا اور حتمی ڈیٹا میں ایک فیصد سے بھی کم فرق تھا۔ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اگر آئینی ادارے کا کام براہ راست جمہوریت پر اثر انداز ہوتا ہے تو انہیں اپنا موقف پیش کرنے کی ذمہ داری بنتی ہے۔انہوں نے کہاکہ  ووٹنگ مشینوں میں گڑ بڑ ہوتی ہے اور سب مانتے ہیں کہ مشینوں میں گڑ بڑہے لیکن الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ مشینوں میں کوئی خرابی نہیں ہے تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جہاں۹۰۷؍ ووٹ ڈالے گئے وہاں۹۷۰؍ ووٹ کیسے ہوجاتے ہیں اور جہاں ۹۷۰؍ ووٹ پڑتے ہیں وہاں۹۶۰؍ کیسے نظر آتے ہیں؟ سندیپ دکشت نے کہاکہ اس رپورٹ کا کئی طریقوں سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے فرق سے جیتا ہے اور کہاں ووٹ کا فیصد کتنا بڑھا ہے۔ ہم الیکشن کمیشن سے اس رپورٹ کا جواب مانگتے ہیں کیونکہ اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے اس رپورٹ کا تسلی بخش جواب نہیں دیا تو یہ ایک سنگین سوال بن جائے گا۔ 
 خیال رہے کہ’ووٹ فار ڈیموکریسی ‘ نام تنظیم نے اپنی تجزیاتی اور تحقیقاتی  رپورٹ میں پولنگ کے فیصد میں فرق کو واضح کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مشکوک اضافی ووٹوں کی وجہ سے بی جے پی کو ملک کی ۱۵؍ریاستوں میں ۷۹؍سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس رپورٹ میں انتخابات میں دھاندلی اور ہیر اپھیری کے اشارے ملنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK