لوک سبھا الیکشن کی یکطرفہ ووٹنگ کے کاٹ کی تیاری، اکثریتی فرقہ میں زعفرانی اتحاد کی حمایت میں رائے ہموار کرنے کیلئے آر ایس ایس بھی سرگرم، ’ٹولیاں ‘ تشکیل دی گئیں۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 9:52 AM IST | Mumbai
لوک سبھا الیکشن کی یکطرفہ ووٹنگ کے کاٹ کی تیاری، اکثریتی فرقہ میں زعفرانی اتحاد کی حمایت میں رائے ہموار کرنے کیلئے آر ایس ایس بھی سرگرم، ’ٹولیاں ‘ تشکیل دی گئیں۔
بی جے پی جو مہاراشٹر میں ہریانہ کی تاریخ دہرانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے پُرعزم ہے، نے لوک سبھا الیکشن میں کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی انتخابی حکمت عملی تیار کی ہے۔ پارٹی نے اپنی ساری توجہ اُن ۱۴؍ لوک سبھا حلقوں پر مرکوز کردی ہے جہاں ’انڈیا‘اتحاد کے حق میں مسلمانوں کی یکطرفہ ووٹنگ کی وجہ سے زعفرانی اتحاد کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جےپی ان پارلیمانی حلقوں کے اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی اکثریتی فرقہ کے ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ اس کیلئے آر ایس ایس بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ خبررساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کے مطابق سنگھ پریوار نے اپنے کارکنوں اور اپنی تمام ذیلی تنظیموں کو اس کیلئے ریاست بھر ’’ٹولیوں ‘‘ کی شکل میں پھیلا دیا ہے۔
اکثریتی ووٹروں کو اپنے حق میں متحد کرنے کی کوشش
ذرائع کے مطابق بی جےپی خاطر خواہ اقلیتوں ووٹوں والے اسمبلی حلقوں میں دہری حکمت عملی پر کام کررہی ہے۔ مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کی پالیسی کے ساتھ ہی اکثریتی فرقہ کے ووٹوں کو زعفرانی پارٹی کے حق میں متحد کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ کولہاپور میں نائب وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس کا ’’ووٹ جہاد‘‘ والا بیان اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دھولیہ میں بی جےپی امیدوار کی مثال پیش کی اورنشاندہی کی کہ دیگر پانچ اسمبلی حلقوں میں سبقت حاصل کرنے کے باوجود بی جےپی کا لوک سبھا کا امیدوار مالیگاؤں سینٹرل(مسلم اکثریتی علاقہ) کے ووٹنگ پیٹرن کی وجہ سے ہار گیا۔ ان کے مطابق ’’ لوک سبھا الیکشن میں ووٹ جہاد نظر آیا۔ دھولیہ میں ۵؍ اسمبلی حلقوں میں بی جےپی امیدوار ۱ء۹؍ لاکھ ووٹوں سے آگے تھا مگر مالیگاؤں سینٹرل جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ہم ایک لاکھ ۹۴؍ ہزار ووٹوں سے پچھڑ گئے اور نتیجتاً ۴۰؍ ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ ‘‘ نائب وزیراعلیٰ اکثریتی فرقہ کے ووٹروں کو اپنے حق میں متحدہ اور الرٹ کرنے کیلئے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بڑی تعداد میں ووٹنگ کرکے وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوتوا طاقتوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔ ‘‘ فرنویس کا یہ بیان بھی مذہب کے نام پر اکثریتی ووٹوں کو بی جے پی کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش ہے کہ ’’اگر لوگ اینٹی ہندو لیڈروں کو منتخب کرنے کیلئے ووٹنگ کررہے ہیں تو ہمیں جاگ جانا چاہئے۔ ‘‘ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم میں ’’ووٹ جہاد‘‘ کے استعمال کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قراردیا ہے اس لئے اس بات کی امید کم ہے کہ اب یہ اصطلاح سنائی دیگی مگر اندیش ہے کہ اکثریتی فرقہ کو پیغام دینے اوراسے اقلیتوں کے برخلاف ووٹنگ کیلئے قائل کرنے کی دوسری کوششیں کی جائیں گی۔
اقلیتی ووٹوں کو بے اثر کرنے کی تیاری
اس کے ساتھ ہی بی جےپی جہاں خاطر خواہ مسلم آبادی والے حلقوں میں ’’سیکولرنظر آنےوالے‘‘ چہروں کو اُتار کر مایوتی کے حق میں مسلم ووٹروں کو ہموار کرنے کی کوشش کریگی۔ اس کے ساتھ ہی این سی پی (اجیت پوار) اور شیو سینا (شندے ) سے وابستہ مقامی سطح کےمسلم سیاسی لیڈروں کو بھی استعمال کیا جائےگا۔ یاد رہے کہ اُدھوسے علاحدگی کے بعد شیوسینا (شندے) میں بڑی تعدا دمیں مسلم لیڈروں کو شامل کیاگیا۔ ان میں ایم آئی ایم جیسی پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والا کارپوریٹر شاہنواز شیخ بھی شامل ہے۔ ان لیڈروں کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ہی ایک سے زائد سیکولر امیدواروں کے ذریعہ مسلم ووٹوں کو اس قدر منتشر کردینے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کی ووٹنگ بے اثر ہوکر رہ جائے۔ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی تیار کرنے والے کلیدی گروپ کے لیڈروں کے مطابق موجودہ اسمبلی الیکشن جیتنے کیلئے امراوتی، دھولیہ، ممبئی نارتھ ایسٹ، ممبئی نارتھ سینٹرل، تھانے اور بھیونڈی کے اسمبلی حلقوں میں زعفرانی اتحاد کی کامیابی کلید ی اہمیت کی حامل ہے۔
آر ایس ایس بھی میدان میں اُتر گیا
مہاراشٹر جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹرز ہے، میں بی جےپی کی ہار سنگھ پریوار کیلئے شرم کا باعث ہوگا۔ اس لئے وہ ہریانہ کے بعد اب مہاراشٹر میں بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق آر ایس ایس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’پورے مہاراشٹر میں سنگھ پریوار کے کارکنوں کی ٹولیاں بنا دی گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں تک پہنچنا اور پیغام کو عام کرنا شروع کردیا ہے۔ ‘‘
ان کے مطابق ’’ہر ٹولی محلے کی سطح پر موجود نیٹ ورک کے توسط سے ۵؍ سے ۱۰؍ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی میٹنگیں اور خاندانوں سے ملاقاتیں کرتی ہے۔ ان میٹنگوں میں وہ کھل کر بی جےپی یا اس کی اتحادی پارٹیوں کو ووٹ دینے کیلئے نہیں کہتے بلکہ اپنی گفتگو میں ہندتوا، اچھی حکمرانی، ترقی، عوام کی فلاح و بہبود اور اس طرح کی دیگر باتوں کے ذریعہ ایسی فضاقائم کرتے ہیں کہ ووٹر کا رجحان موجودہ حکومت کی طرف ہوجائے۔ ‘‘اس کیلئے گفتگو میں لاڈلی بہن جیسی اسکیموں کا سہارا لیا جاسکتاہے۔ ذرائع کے مطابق لوگوں کے ڈرائنگ روم میں ہونےوالی اس طرح کی میٹنگوں کا ہریانہ میں غیر معمولی اثر ہوا اور عوامی سطح پر حکومت مخالف لہر نظر آنے کے باوجود بی جےپی تیسری بار برسراقتدار آنے میں کامیاب ہوگئی۔ اسی کو مہاراشٹر میں دہرانے کی تیاری ہے۔