• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کچرا لے جانے کیلئے بی ایم سی کا ہر گھر سے ’فیس‘ لینے کا منصوبہ

Updated: December 15, 2024, 11:38 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

رہائش گاہوں کے رقبہ کے اعتبار سے۱۰۰؍ سے ۵۰۰؍ روپے اور کمرشیل یونٹ سےاس سے زیادہ رقم وصول کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔عوام میں شدید ناراضگی۔

This photo of BMC sanitation workers has been posted by BMC on X. Photo: INN
’بی ایم سی‘ کے صفائی ملازمین کی یہ تصویر’ بی ایم سی‘ نے ایکس پر پوسٹ کی ہے۔ تصویر: آئی این این

پونے، دہلی اور چنئی کی طرز پر ممبئی میں بھی کچرا لے جانے اور ’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ کیلئے شہریوں سے ’یوزر فیس‘ کے نام پر رہائش گاہوں اور کمرشیل یونٹ سے پیسے وصول کرنے کا بی ایم سی منصوبہ بنا رہی ہے۔ اگرچہ ابھی فیس کی رقم طے نہیں کی گئی ہے لیکن رہائش گاہوں سے۱۰۰؍ سے  ایک ہزار روپے اور کمرشیل یونٹ سے ۷؍ ہزار ۵۰۰؍ روپے تک وصول کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ بی ایم سی کے اس منصوبے پر شہریوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ صاف صفائی میونسپل کارپوریشن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
واضح رہے کہ عام طور پر گھروں، تجارتی اداروں، کارخانوں اور صنعت سے جو بھی چیزیں کچرے کے طور پر پھینکی جاتی ہیں وہ سالڈ ویسٹ میں شمار ہوتی ہیں۔ ان میں پلاسٹک، کھانا، کاغذ اور شیشے وغیرہ شامل ہیں۔
بی ایم سی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ شہری انتظامیہ کچرا جمع کرکے لے جانے اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کیلئے جو فیس وصول کرنا چاہتا ہے، اس کے تعلق سے بی ایم سی کمشنر بھوشن گگرانی کے سامنے ۱۶؍ دسمبر کو ’پریزینٹیشن‘ دیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی اس تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ ہوگا۔ اس کے بعد بھی اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل عوام سے مشورے اور اعتراضات طلب کئے جائیں گے۔
اس افسر کے مطابق مرکزی حکومت نے ’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ (ایس ڈبلیو ایم) رُولز ۲۰۱۶ء‘ وضع کیا تھا اور اسی کے مطابق کچرا صفائی کیلئے عوام سے فیس وصول کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ البتہ فی الوقت بی ایم سی اپنے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ’بائی لاء‘ (ضمنی قوانین) پر نظر ثانی کرکے ان میں ان شِقوں  کو شامل کررہی ہے جن کی بنیاد پر لازمی طور پر کچرا صفائی کیلئے فیس نافذ کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ اب تک یہ طے نہیں کیا گیا ہے کہ عوام سے کتنی فیس وصول کی جائے گی لیکن ایک اندازے کے مطابق ۵۰۰؍ مربع فٹ کے گھروں سے ۱۰۰؍ روپے اور اس سے زیادہ بڑے گھروں سے ۵۰۰؍ سے ایک ہزار روپے ماہانہ فیس وصول کی جاسکتی ہے۔ جبکہ کمرشیل یونٹ کے لئے ابھی کوئی رقم سوچی نہیں گئی ہے لیکن لازمی طور پر یہ رہائش گاہوں سے زیادہ ہوگی۔واضح رہے کہ پونے، دہلی اور چنئی جیسے شہروں میں پہلے ہی یہ فیس نافذ کردی گئی ہے جس میں رہائش گاہوں سے ۱۰۰؍ روپے اور کمرشیل یونٹ سے ۵۰۰؍ روپے وصول کئے جا رہے  ہیں۔
ایس ایم ڈبلیو فیس کیوں؟
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں ’یوزرس فیس‘ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ مقامی میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ کچرا پیدا کرنے والوں سے وصول کی جانے والی رقم تاکہ کچرا جمع کرنے، اسے ڈمپنگ گرائونڈ یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ یونٹ تک لے جانے اور کچرے کو ختم کرنے کے جو اخراجات ہوتے ہیں ان کا مکمل یا جزوی خرچ وصول کیا جاسکے۔
بی ایم سی افسر کے مطابق ۲۰۲۲ء کے سالانہ بجٹ میں یوزر فیس وصول کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا تھا۔
اس سلسلے میں بی ایم سی ذرائع  کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر تقریباً ۲؍ لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے کی ذمہ داری ہے جو مختلف پروجیکٹوں وغیرہ پورے کرنے کیلئے اس پر آگئی ہے۔ اس فیس سے بھی اس پر مالی قرض کا بوجھ کچھ کم ہونے کا امکان ہے۔
عوام میں ناراضگی
 گھڑپ دیو پر میں رہائش پزیر عبدالحمید خان نے اس فیصلے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’شہر میں صاف صفائی رکھنا بی ایم سی کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کیا بی ایم سی بھی اب کسی نجی کمپنی کی طرح ہر کام کیلئے پیسے وصول کرے گی؟‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بی ایم سی جو بھی پروجیکٹ بناتی ہے اس پر ٹول وغیرہ نافذ کرکے اس کے اخراجات تو وصول کر ہی لیتی ہے تو پھر ان پروجیکٹوں کیلئے ہر شہری سے پیسے وصول کرنے میں کہاں کی سمجھداری ہے؟ خصوصاً ایسے وقت میں جب تمام پروجیکٹ ہر شہری کے استعمال میں بھی نہیں آئے گا ۔کئی پروجیکٹ مخصوص علاقوں کے افراد  ہی کیلئے فائدہ مند ہوں گے، ضروری نہیں کہ ہر شہری ممبئی میں واقع ہر سڑک اور ہر بریج کو استعمال کرے۔‘‘
 ایک خاتون خانہ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’کہیں لاڈلی بہن اسکیم کے تحت دی جانے والی رقم کو وصول کرنے کا یہ طریقہ تو نہیں تلاش کیا گیا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو بی ایم سی کوئی بھی کام ٹھیک طرح سے نہیں کرتی۔ نہ سڑکیں اچھی ہیں، نہ پانی کی سپلائی اچھی طرح ہوتی ہے اور جابجا کچروں کا ڈھیر نظر آتا ہے تو پھر یہ کس بات کا پیسہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ لوگ غریبوں کو زندہ رہنے دینا چاہتے ہیں؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK