’’کاپی فری مہم‘‘ کے تحت کئے جانیوالے اس فیصلہ سےبورڈ کے امتحانی عملے کوروزانہ ۳۰۔۲۵؍کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا، بالخصوص خواتین اُمیدواروںکو بڑی پریشانی ہوگی ، محکمہ تعلیم سے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست۔
EPAPER
Updated: January 23, 2025, 4:17 PM IST | Saadat Khan/Khalid Abdul Qayyum Ansari | Mumbai/Bhiwandi
’’کاپی فری مہم‘‘ کے تحت کئے جانیوالے اس فیصلہ سےبورڈ کے امتحانی عملے کوروزانہ ۳۰۔۲۵؍کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا، بالخصوص خواتین اُمیدواروںکو بڑی پریشانی ہوگی ، محکمہ تعلیم سے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست۔
مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن ( ایم ایس بی ایس ایچ ایس ای) کےزیر نگرانی دسویں اور بارہویں کےامتحانات شفاف طریقے سے منعقد کرانے کیلئے محکمہ تعلیم نے ’کاپی فری مہم‘ شروع کی ہے، یہ اقدام خوش آئند ہےلیکن اس میں پائی جانےوالی چندکمیو ں کے خلاف تعلیمی تنظیموںنے ناراضگی کا اظہار کیاہے۔ پہلی مرتبہ امتحانی مراکز کے ذمہ داران کا ایک سے دوسرے مرکزپر تبادلہ کرنےکی ہدایت جاری کی گئی ہے ۔ جس کی وجہ سےمتعدد معاملات میں ایک سے دوسرے سینٹر جانے کیلئے امتحانی عملے کو روزانہ۳۰۔۲۵؍ کلومیٹر کا فاصلہ طےکرناہوگا ۔ا س کی وجہ سے اساتذہ کی خالی اسامیوںکو مدنظر رکھاجائے تو پرچے والے دن اسکول چلانامشکل ہوگا۔ اساتذہ پر عدم اعتماد ظاہر کرنے والے رویہ سے بھی ٹیچربرادری میں برہمی پائی جارہی ہے۔
اس ضمن میں مہاراشٹر اسٹیٹ سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری اسکول پرنسپلز اسوسی ایشن ، اکھل بھارتیہ اُردو شکشک سنگھ اوردیگر تعلیمی تنظیموں نے سخت اعتراض جتایاہے۔ان کی جانب سے ایم ایس بی ایس ایچ ایس ای، ایجوکیشن منسٹراور ایجوکیشن کمشنر کو مکتوب روانہ کئے گئےہیں۔ جس میں ان کمیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ واضح رہےکہ کاپی فری مہم میں کچھ کمیوںکا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً امتحانی مرکز کے ڈائریکٹر اورممتحن کوایک سےدوسرے سینٹر پر منتقل کرنےکا فیصلہ کیاگیاہے۔ جس سے یہ ظاہر ہورہاہےکہ محکمہ تعلیم کو اساتذہ پر اعتماد نہیں ہے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے نقل سے پاک مہم کے حوالے سے دی گئی ایک اور تجویز میں کہا گیا ہے کہ امتحانات کے انعقاد کیلئے جن امتحانی مراکز میں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کے طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا انہیں شفاف رکھا جائےحالانکہ ریاستی بورڈ کے سوالیہ پرچے ۳؍ پرتوں کی پیکنگ میں آتے ہیں۔ تمام دستخط موصول ہونے کے بعد، انہیں طلبہ کے سامنے کھولا جاتا ہے۔ اس وقت، کلاس میں کم از کم ۶۔۵؍ اسکولوں کے طلبہ موجود ہیں۔ امتحانی مرکز کے ڈائریکٹر کی طرف سے کلاس روم کے کل ۴؍ سے ۵؍ راؤنڈ ہوتے ہیں۔ جب پوری کلاس کے سامنے پرچہ نویسی کا عمل ترتیب سے ہو رہا ہو تو کیا اساتذہ پر یہ عدم اعتماد ظاہر کرنا مناسب ہے؟ یہ سوال قائم کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے اساتذہ کیلئے پیپر کے دن کے علاوہ اسکول میں پڑھانا ممکن نہیں ہو گا۔
امتحانی مرکز کے ڈائریکٹر یا سپروائزر کوکسی دوسرے اسکول میں منتقل کرنے سےاس اسکول کے نظام سے آگاہ نہ ہونے سے انہیں پریشانیوںکا سامنا کرناپڑسکتاہے۔ امتحان کے دوران کوئی تعلیمی ضرورت پیش آتی ہے تو اسے فوری طور پر پورا کرنےمیں دشواری ہوگی۔ کاپی فری مہم کو شاندار طریقے سے نافذ کیا جائے لیکن اسکول کے بانی، پرنسپل اور اساتذہ یونین کو اعتماد میں لئے بغیر سینٹر ڈائریکٹر اور انچارج کو تبدیل کرنا مناسب نہیں ہے۔ پرنسپلز اسوسی ایشن نے بورڈ آف ایجوکیشن کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ امتحانی مراکز پر اسی سینٹر کے عملے کی تقرریاں کی جائیں تاکہ امتحانات کا انعقاد بخوبی ہوسکے۔
اکھل بھارتیہ اُردو شکشک سنگھ کے جنرل سیکریٹری ساجد نثار نے انقلاب کوبتایاکہ ’’ امسال ہونےوالے بورڈ امتحانات کیلئے محکمہ تعلیم نے نقل سے پاک مہم شروع کی ہے جس کاہم خیر مقدم کرتے ہیںلیکن اس تعلق سے امتحانی مراکز کے ڈائریکٹروں، انچارجوںاور ممتحن کا ایک سے دوسرے اسکول تبادلہ کرناسمجھ میں نہیں آیاہے۔ اس کی وجہ سے متعدد قسم کی پریشانیاں درپیش ہیں۔ جنہیں دور کرنےکی ضرورت ہے۔ ایک تو عین امتحان شروع ہونے سے ۱۵؍دن قبل اس طرح کا فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس فیصلہ سے ٹیچروںکے تعلق سے عدم اعتماد کا پیداہونے والا جذبہ بھی تکلیف دہ ہے۔ علاو ہ ازیں اس فیصلہ سے دیہی علاقوںکے امتحانی مراکز میں زیادہ مسائل پیدا ہوں گےکیونکہ ان علاقوںکےمتعدد گائوںمیں ایک امتحانی مرکز ہونے سے اس مرکز کے ذمہ داران کو اگر دوسرے مرکزپر بھیجاجاتاہے، تو اسے کم وبیش ۲۵؍ سے ۳۰؍کلومیٹر کا سفر روزانہ طے کرنا ہوگا ۔ بالخصوص خواتین اُمیدواروںکو اس سے بڑی پریشانی ہوگی لہٰذا محکمہ تعلیم سے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست ہے۔‘‘
’شکسن کرانتی سنگٹھن‘ نے بھی شدید اعتراض کیا
دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات نقل سے پاک اور دباؤ سے آزاد منعقد کرنے کے لئے ’ایگزام سینٹر‘ کے انچارج، نگراں اور چپراسیوں کے امتحانی مراکز تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ریاستی تعلیمی بورڈ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تمام علاقائی تعلیمی بورڈز کو اس سلسلے میں ہدایات جاری کی ہیں۔ تاہم، اس فیصلے کو مشکل اور پریشانی کا باعث قرار دیتے ہوئے تعلیمی تنظیموں نے سخت اعتراض کیا ہے۔ بھیونڈی میں مقیم شکسن کرانتی سنگٹھن کے ریاستی صدر سدھیر دیورام گھاگس نے اس اقدام پر شدید تنقید کرتے ہوئے انتباہ دیا ہے کہ اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ برسوں سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کے دوران چند امتحانی مراکز پر نقل کی شکایات سامنے آئی ہیں، لیکن ایسے مراکز کی تعداد بہت کم ہے۔ نقل پر قابو پانے کی بجائے، تمام امتحانی مراکز کے عملے کو تبدیل کرنا انتہائی غیر منصفانہ ہے، جس کی وجہ سے ریاستی شکسن کرانتی سنگٹھن نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔سدھیر گھاگس نے انتباہ دیا ہے کہ اگر ریاستی بورڈ اپنا من مانافیصلہ واپس نہیں لیتا ہے تو دسویں اور بارہوں کے امتحانات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ شہر کے اسکولوں میں دو شفٹ میں تدریسی عمل جاری رہتا ہے۔ امتحانات کے دوران اسکولوں میں باقاعدہ تعلیمی سرگرمیاں بھی چلتی ہیں۔ شہری علاقوں میں صبح سے ہی ٹریفک جام کا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔اساتذہ کیلئے پہلے اپنے اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیکر، بدلے ہوئے امتحانی مراکز تک وقت پر پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اساتذہ اور نگران عملے کے سامنے یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر انہیں کسی دوسرے مرکز پر جانا پڑے تو وہ اپنے تدریسی اوقات کو کس طرح منظم کریں گے۔ علاوہ ازیں،آپار آئی ڈی بنانے، پیٹ پیپر تیار کرنے اور دیگر آن لائن کام بھی بروقت مکمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔سدھیر گھاگس نے کہا کہ ریاستی تعلیمی بورڈ کو بغیر مراکز تبدیل کیے نقل کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور لوگوں کو غیر ضروری اخراجات اور پریشانیوں سے بچانا چاہیے۔ انہوں نے بورڈ کے صدر شرد گوساوی کو دئیےگئے ایک عرضداشت میں انتباہ دیا کہ اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو شکسن کرانتی سنگٹھن عدم تعاون کی تحریک شروع کرے گا۔