• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بامبے ہائی کورٹ کوبدلاپور انکاؤنٹر پرشبہ، پوچھا ’’سر میں ہی گولی کیوں ماری گئی ؟‘‘

Updated: September 26, 2024, 12:32 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai

عدالت نے ملزم کوکمزور شخص قرار دیتے ہوئے ۴؍ پولیس والوں پر قابو پانے اور آسانی سے پستو ل لوڈ کرکےپہلے گولی چلانے کی دلیل ماننے سے بھی انکار کردیا

Akshay Shinde`s parents reached the hospital to collect the dead body (Photo: PTI).
اکشے شندے کے والدین لاش لینے کیلئے اسپتال پہنچے تھے۔(تصویر: پی ٹی آئی )

بدلاپور انکاؤنٹر میں جنسی زیادتی کے ملزم اکشے شندے کی مڈبھیڑ میں ہلاکت پر بامبے ہائی کورٹ نے بدھ کو تھانے پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس سے کئی سخت سوال کئے۔ ساتھ ہی انکائونٹر کے اصلی ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔ عدالت نے یہ سوالات ملزم کے والد کی درخواست پر سماعت کے دوران  کئے۔
  عدالت نے پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کیلئے مناسب تربیت دی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آخر ملزم کے سر پر گولی کیسے لگی؟ پولیس کو تربیت کے دوران  یہ سکھایا جاتا ہے کہ مڈبھیڑ کے حالات میں ملزم کے بدن کے کس حصے پر گولی چلانی  ہے۔ ایسی صورت حال میں پولیس کو ملزم کے پیر یا ہاتھ پر گولی چلانی چاہئے تھی۔بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کی جسٹس ریویتی موہیتے ڈیرے اور جسٹس پرتھوی راج چوان نےکہ کہا جب یہ انکاؤنٹر ہوا تو پولیس اہلکار وردی میں نہیں تھے۔ پستول بائیں طرف تھا۔ جب مقتول گاڑی میں تھا، تو بندوق لاک تھی۔ ملزم نے پولیس سے جب جبری طور پر بندوق چھینی، تب وہ اَن لاک ہو گئی۔جس اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر نے اسکے سر میں گولی ماری وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوگا کہ ملزم پر قابو پانے کے لئے پیر یا جسم کے دیگر حصوں میں بھی گولی ماری جاسکتی تھی ۔
 عدالت نے کہاکہ اس پوری صورت حال پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ بندوق چھیننے کے لئے ملزم کے پاس طاقت ہونا ضروری ہے، ایک کمزور آدمی سے اتنی پھرتی اور برق رفتاری کی توقع نہیں کی جاسکتی ،نہ وہ اتنی آسانی سے بندوق اَن لاک کرکے گولی چلا سکتا ہے اور نہ ۴؍ پولیس اہلکاروں پر قابو پاسکتا ہے۔ ملزم  اکشے شندے کے وکیل امیت کٹارنوارے نے عدالت  سے مطالبہ کیا کہ اس واردات  سے متعلق تمام سی سی ٹی وی  فوٹیج کو محفوظ رکھا جائے۔

 جس دن یہ واقعہ ہوا، اسی دن ملزم نے اپنے والدین سے فون پر بات کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا اسے ضمانت ملے گی۔ ایسی صورت میں پولیس کی جانب سے دئیے گئے بیان پر شبہ ہوتا ہے کیونکہ ملزم اس دن اس ذہنی حالت میں نہیں تھا کہ وہ پولیس سے ریوالور چھین لے۔ وکیل کے مطابق  اُس دن ملزم نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے والدین سے ۵۰۰؍ روپے بھی مانگے تھے تاکہ جیل کینٹین کی سہولت حاصل کر سکے۔ ملزم نہ تو بھاگنے کی صورت میں تھا اور نہ ہی پولیس سے ریوالور چھیننے کی صورت میں۔
 ملزم کے وکیل نے عدالت میں یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اسمبلی  انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اکشے شندے کو مارا گیا ہے، جس پر کئی طرح کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس معاملے نے پولیس کو بھی سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ملزم کے وکیل نے اس واقعے کو جعلی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کی درخواست کی۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملے کی پولیس اور کسی دیگر آزاد ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کی جانی چاہئے۔ انہوں نے عدالت سے کیس کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست بھی کی۔ 
 واضح رہے کہ اکشے شندے کو پولیس نےبدلا پور اسکول میں  دو بچیوں سے جنسی زیادتی کے الزامات میں گرفتار کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کے خلاف احتجاج کیا اور ملزم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین نے اسکول میں پتھراؤ اور ریل روکو تحریک بھی چلائی تھی۔ اسی درمیان پولیس کی جانب سے سینئر وکیل ہیتین ونیگاؤنکر  نے صفائی پیش کرتے ہوئےکہا کہ معاملہ میں سی آئی ڈی بھی جانچ کررہی ہے اور اس ضمن میں ۲؍ ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ ایک ایف آئی آر حادثاتی موت کے تحت اور دوسری ایف آئی آر جوابی کارروائی میں کئے گئے انکاؤنٹر اور مہلوک کی موت پر جانچ کی ہے۔ ساتھ ہی وکیل استغاثہ نے ممبرا بائی پاس پر ہونے والے انکاؤنٹر اور ملزم کے فوت ہونے کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے اور  انہیںکلوا کے شیواجی اسپتال میں داخل کئے جانے کی اطلاع دی ۔ اس کے علاوہ لاش کے پوسٹ مارٹم سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے سرکاری وکیل نے جے جے اسپتال میں صبح ۸؍ بجے پوسٹ مارٹم کرنے اور اس کی ویڈیو گرافی کی بھی تفصیلات فراہم کیں ۔ بعد ازیں جسٹس پرتھوی راج چوان نے ملزم کے ذریعہ استعمال کئے گئے اسلحہ کے پہلے سے لوڈ کئے جانے یا ملزم کے اسلحہ لوڈ کرنے سے واقف ہونے اوراسلحہ میں پہلے سے میگزین موجودہونے سے متعلق بھی استفسار کیا اور یہ بھی جاننا چاہا کہ اسے ہتھکڑی لگی تھی یا نہیں۔ 
 اس کا  جواب دیتے ہوئے وکیل نے بتایا کہ پانی مانگنے پر اس کی ہتھکڑی کھولی گئی تھی اور نقاب ہٹایا گیا تھا۔ تاہم کورٹ نے پولیس کی اس کارروائی پر مزید کئی سوال قائم کئے ہیں اور ساتھ ہی مہلوک اکشے کو جیل سے لے جانے سے لے کر انکاؤنٹر کئے جانے اور اسپتال میں پوسٹ مارٹم ہونے تک سبھی کے فورینسک دستاویزات کی تفصیلات اور سی سی ٹی وی فوٹیج اکٹھا کرنے اور اسے محفوظ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ۳؍ اکتوبر تک کے لئے ملتوی کر دی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK