• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

برطانوی عدالت نے جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی

Updated: December 11, 2021, 12:03 PM IST | Agency

برطانیہ کی اپیلیٹ کورٹ نے ماتحت عدالت کےفیصلے کو رد کرتے ہوئے وکی لیکس کےبانی جولیان اسانج کو امریکہ بھیجنے کی اجازت دے دی۔خبر رساںایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ہائی کورٹ نےفیصلہ سنایا کہ امریکہ کی یقین دہانی اس بات کیلئےکافی ہے کہ اسانج کے ساتھ انسانی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے۔

Julian Assange. Picture:INN
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج۔ تصویر: آئی این این

برطانیہ کی اپیلیٹ کورٹ نے ماتحت عدالت کےفیصلے کو رد کرتے ہوئے وکی لیکس کےبانی جولیان اسانج کو امریکہ بھیجنے کی اجازت دے دی۔خبر رساںایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ہائی کورٹ نےفیصلہ سنایا کہ امریکہ کی یقین دہانی اس بات کیلئےکافی ہے کہ اسانج کے ساتھ انسانی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے۔عدالت نے نچلی عدالت کے جج کو حکم دیا کہ وہ حوالگی کی درخواست سیکریٹری داخلہ کو بھیج دے، جو برطانیہ میں قانون کے نفاذ کے امور دیکھتا ہے اور وہی جولیان اسانج کو امریکہ منتقل کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے۔تاہم اپیلیٹ کورٹ کی جانب سے دئیے گئے فیصلے پر اپیل کرنے کا امکان موجود ہے۔
 واضح رہے کہ رواں برس کےاوائل میں نچلی عدالت نے فیصلے میں جولیان اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی، جن پر امریکہ نے ایک دہائی قبل خفیہ فوجی دستاویزات شائع کرنےپر جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج ونیسا بیرائسٹرنےاسانج کو صحت کےمسائل کی وجہ سے بے دخل کرنے کی درخواست مسترد کی تھی اور کہا تھا کہ اگر اسانج کو امریکہ میں سختی کے ساتھ جیل میں رکھا گیا تو وہ خودکشی کرسکتے ہیں۔امریکہ نےامریکی عدالتی نظام سے جوڑ کر اسانج کی صحت کی خراب حالت کی بنیاد پر دئیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔ وکیل جیمزلیوس کا کہنا تھا کہ اسانج کی ذہنی حالت خراب ہونے کی ماضی میں کوئی شکایت سامنے نہیں آئی اور وہ اس قدر شدید علیل نہیں ہیں کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے سے نہیں روک سکتے ہیں۔امریکی حکام نے برطانوی جج کو بتایاکہ اگر وہ اسانج کو بے دخل کرنےکیلئےتیار ہوتے ہیں تو پھر امریکہ میں سنائی گئی سزا اپنے آبائی ملک آسٹریلیا میں کاٹ سکتے ہیں۔امریکی وکیل نے اسانج پر جاسوسی کے ۱۷؍ الزامات عائد کیےتھے اور ان میں سے ایک کمپیوٹر کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فوجی اور سفارتی دستاویزات لیک کرکےوکی لیکس پر شائع کرنے کا تھا۔قانون کے مطابق ان الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا۱۷۵؍سال قید ہوسکتی ہے تاہم لیوس کا کہنا تھا کہ اس جرم کی سزا ۶۳؍مہینے سے طویل نہیں ہوگی۔امریکہ کو مطلوب جولیان اسانج اس وقت برطانیہ کی ہائی سیکوریٹی کے بیلمارش جیل میں موجود ہیں۔
 یاد رہے کہ نومبر۲۰۱۰ءمیںسویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتےہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکہ کے حوالے کردیا جائے گا۔بعد ازاں دسمبر۲۰۱۰ءمیںجولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ ۱۰؍روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔جس کے بعد اگست ۲۰۱۲ء میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے انہیں لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارتخانے منتقل کردیا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK