چھتیس گڑھ کے امبیکاپور میں جنگلات کی زمین پر قبضے کا حوالہ دے کرانتظامیہ کی کارروائی، مسلمانوں کے۴۰؍ مکانات منہدم لیکن غیر مسلموں کے مکانوں پرکوئی کارروائی نہیں۔
EPAPER
Updated: January 24, 2025, 11:07 AM IST | Agency | Ambikapur
چھتیس گڑھ کے امبیکاپور میں جنگلات کی زمین پر قبضے کا حوالہ دے کرانتظامیہ کی کارروائی، مسلمانوں کے۴۰؍ مکانات منہدم لیکن غیر مسلموں کے مکانوں پرکوئی کارروائی نہیں۔
چھتیس گڑھ میں امبیکا پور کے قریب مہامایا پہاڑ نامی علاقے میں آباد مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزرچلادیاگیا۔ محکمہ جنگلات کی زمین پرسے تجاوزات ہٹانے کے نام پر کی گئی اس کارروائی میں مسلمانوں کے۴۰؍ مکانات منہدم کردئیےگئے جبکہ غیر مسلموں کے مکانات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ محکمہ جنگلات نے نوٹس جاری کر کے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد انتظامیہ کی ٹیم نے تجاوزات ہٹانے کا عمل شروع کیا۔ اس دوران متاثرین نے کارروائی کی مخالفت بھی کی۔ سینئر کانگریس لیڈران سمیت علاقے کے مکینوں کی بڑی تعداد جے سی بی کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئی۔ پولیس نے احتجاج پر بیٹھے لوگوں کو ہٹانے کیلئے ہلکی طاقت کا استعمال کیا۔
مقامی لیڈر غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ’’جنگل کی زمین پر ۲۰۰؍ گھر ہیں لیکن صرف مسلمانوں کے گھر ہی گرائے گئے۔ حکام کی جانب سے ۶۰؍ گھروں کو نوٹس بھیجے گئے۔ ہم نے انہدام کی مہم پر روک لگانے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن اسٹےآرڈر ہم وقت پر حاصل نہیں کر سکے۔ ‘‘
ایک شخص اپنا سامان سمیٹ کرجا رہا ہے۔ تصویر: آئی این این
ریاست کے وزیر جنگلات کیدار کشیپ کے ضلع سرگوجہ کا دورہ کرنے اور علاقہ سے تجاوزات ہٹانے کے احکامات کے تین دن بعد بلڈوزر کی کارروائی کی گئی۔ وزیر نے کہا تھا کہ تجاوزات کو ہٹایا جائے گا۔ غلام مصطفیٰ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں ان یہاں کے مکینوں کے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں انہیں ’روہنگیا‘ کہہ کر علاقے سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم، چونکہ اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی اس لیے اس معاملہ کو روک دیا گیا تھا۔ مصطفیٰ کے مطابق یہ رہائشی دو دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔ وہ جھارکھنڈ، بہار اور اتر پردیش کے مہاجر مزدور ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہدامی مہم اس علاقے میں چلائی گئی جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ مسمار ہونے والے تمام گھر مسلمانوں کے تھے۔ اگر آپ اس علاقے میں مزید جائیں تو یہاں دلتوں اور دیگر برادریوں کی آبادی ہے لیکن صرف مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس کارروائی کے خلاف مقامی مسلم گروپ رضا یونٹی فاؤنڈیشن نے سرگوجہ کلکٹر کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت بے گھر لوگوں کے لیے پناہ، خوراک، پانی اور ادویات کے عارضی انتظامات کا مطالبہ کیا گیا۔ میمورنڈم میں کہا گیاہے کہ ’’ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بلڈوزر کی حالیہ کارروائی نے کئی غریب کنبوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ ان خاندانوں میں معصوم بچے، بوڑھے، عورتیں اور بچیاں شامل ہیں۔ وہ اس شدید سردی میں کھلے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو مدد فراہم کرے۔ ‘‘ گروپ کے صدر شاداب رضوی کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا۔ مقامی مسلم لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زمین جنگل کی ہے لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ مکانات کو کسی خاص ترتیب سے کیوں نہیں گرایا گیا۔ علاقے کے وسط سے مسماری مہم کیوں شروع کی گئی؟
کانگریس لیڈرشفیع احمد نے بھی انہدام کی مہم پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے جان بوجھ کر مسلم طبقے کو نشانہ بنایا۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کے بارے میں بی جے پی کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ باشندے وہاں ۲۰؍ سال سے رہ رہے ہیں۔ اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی اور اب مرکز اور ریاست دونوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ پھر بنگلہ دیشی درانداز کیسے داخل ہوئے؟شفیع احمد کے مطابق، پہلے ان الزامات کی تحقیقات کی گئی تھیں کہ یہ باشندے ’روہنگیا‘تھے، لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ایک پوسٹ میں اس کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاستی وزیر او پی چودھری نے دعویٰ کیا کہ علاقے میں رہنے والے لوگ بنگلہ بولتے ہیں ۔ آپریشن کے دوران۵۰۰؍سے زائد پولیس اہلکار، محکمہ جنگلات، میونسپل کارپوریشن اور ضلعی انتظامیہ کے ملازمین تعینات تھے۔ ہائی کورٹ میں اس معاملے پر سماعت ہونے کی وجہ سے دوپہر کو ٹیم تجاوزات ہٹانے کی کارروائی روک کر واپس آگئی۔ ذرائع کے مطابق ۵؍ دن بعد اس معاملے پر دوبارہ سماعت ہوگی، اس وقت تک یہ کارروائی رُکی رہے گی۔