مغربی بنگال کے جنوبی دیناج پور کے ایک مندر میں جانوروں کی بلی روکنے سے متعلق داخل کردہ اپیل پر عدالت کا تبصرہ، کہا مشرقی ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: October 30, 2024, 10:38 AM IST | Kolkata
مغربی بنگال کے جنوبی دیناج پور کے ایک مندر میں جانوروں کی بلی روکنے سے متعلق داخل کردہ اپیل پر عدالت کا تبصرہ، کہا مشرقی ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے جانوروں کی بَلی سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ توقع کرنا غیر حقیقی ہے کہ مشرقی ہندوستان میں ہر شخص سبزی خور ہو گا۔ جنوبی دیناج پور کے ایک مندر میں جانوروں کی بلی کا رواج ہے۔ ہائی کورٹ میں اکھل بھارتیہ کرشی گئوسیوا سنگھ کے ذریعے داخل کردہ مفاد عامہ کی ایک اپیل میں مندر میں ۱۰؍ ہزار جانوروں کی بلی پر پابندی عائدکرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
جسٹس بسواجیت بوس اور جسٹس اجے کمار گپتا کی تعطیلاتی بینچ میں اس معاملے میں سماعت ہوئی۔ بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ججوں کی بینچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر کسی کو سبزی خور بنانا ممکن نہیں۔ ریاست کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل کشور دتہ پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل کی مثال دی۔ دو ججوں کی بینچ نے کہاکہ اگر عرضی گزار کاحتمی مقصد پورے مشرقی ہندوستان کو سبزی خور بنانا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل مچھلی کھائے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ وہ مچھلی کھائے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ انہوں نے کہا’’ میں بہت زیادہ نان ویجیٹیرین ہوں۔ ‘‘
عدالت نے سوال کیا کہ کیا مدعی یہ پابندی صرف مندر کے معاملے میں چاہتے ہیں ؟ یا مجموعی طور پر جانوروں کی قربانی روکنے کی درخواست کے ساتھ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے ؟ جواب میں مدعی کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس صرف ایک مندر کا ہے۔ واضح رہےکہ جنوبی دیناج پور کے بولا رکشا کالی مندر کا یہ معاملہ ہے جہاں ہر سال نومبرمیں راس پورنیما کی تقریب کےد وران ہزاروں جانوروں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جانوروں کی بلی کا رواج آئین کے آر ٹیکل ۲۵؍کے مطابق ضروری مذہبی رسوم کی ادائیگی کے تحت نہیں آتا۔
تاہم مدعی کے وکیل کے اس دعوے پر دو ججوں کی بینچ نے سوال کیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ ضروری مذہبی رسومات میں نہیں آتا؟ شمالی ہندوستان کی مذہبی رسومات اس خطہ بنگال اور مشرقی ہندوستان کی مذہبی رسومات سے پوری طرح مماثل نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ اس بارے میں بھی بحث جاری ہے کہ آیا افسانوی کردار سبزی خور تھے یا غیر سبزی خور۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ معاملے کو اس طرح محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو چکن کھاتے ہیں لیکن مرغی کو ذبح ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
سماعت کے ایک مرحلے پر ایڈوکیٹ جنرل کشور دتہ نے کہا کہ مفاد عامہ کے اس کیس میں مفاد عامہ کے مسائل کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ عرضی گزار بنام مندر انتظامیہ کا ہے۔ اس میں ’مفاد عامہ‘ جیسا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک پرانی ہدایت کا بھی ذکر کیا۔ اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت جانوروں کی قربانی پر پابندی کا حکم نہیں دے سکتی۔ پارلیمنٹ یا پھر اسمبلی قانون سازی کے ذریعہ پابندی عائدکرسکتی ہے۔ اسی وقت ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت میں جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے قانون کی دفعہ۲۸؍ کابھی حوالہ دیا۔ اس شق میں مذہبی وجوہات کی بنا پر کسی کمیونٹی کو جانوروں کی قربانی کی اجازت دینے کا بھی ذکر ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے جانوروں کی قربانی سے ماحولیاتی آلودگی کے معاملے پر بھی عدالت کی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ تاہم عدالت نے کہا کہ اگر اس عمل سے ماحول کو نقصان ہوتا ہے تو ریاستی حکومت کو کارروائی کرنی چاہئے۔ جسٹس باسو نے عرضی گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ ’’اگر عدالت تمام جانوروں کی قربانیوں پر پابندی کا حکم دیتی ہے، تو یہ کیسے کارآمد ہوگا؟‘‘ اس حوالے سے ایک کیس پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت نے تعطیلاتی بینچ کے اس کیس کو گزشتہ کیس کے ساتھ شامل کرنے کا بھی حکم دیااور کیس کو چیف جسٹس کی بینچ کو منتقل کردیا۔