• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیلیفورنیا: تعلیمی اداروں میں ۵۰؍ فیصد سے زائد مسلم طلبہ کو اسلاموفوبیا کا سامنا

Updated: November 24, 2024, 12:24 AM IST | California

ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد کیلیفورنیا کے تعلیمی اداروں میں ۵۰؍ فیصد سے زائد مسلم طلبہ کو امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

حال ہی میں جاری کئے گئے ایک سروے کے مطابق، کیلیفورنیا، امریکہ میں کالج کے تقریباً نصف مسلم طلبہ کو ہراساں کئے جانے یا امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) اور سینٹر فار دی پریونشن آف ہیٹ اینڈ بلینگ (سی پی ایچ بی) کے کیلیفورنیا باب کی رپورٹ میں کیلیفورنیا بھر کے ۸۷؍ سرکاری اور نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ۷۲۰؍ طلبہ کے جوابات شامل ہیں، جس میں ۲۰۲۰ء کے مقابلے میں طلبہ کو اسلاموفوبیا کا ۱۰؍ فیصد زیادہ سامنا کرنا پڑا ہے۔ سی اے آئی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد کیمپس میں اسلاموفوبیا کے ساتھ ساتھ فلسطین مخالف نفرت، اور عرب مخالف نسل پرستی کو بڑھاوا دیا گیا ہے، جس سے مسلمان طلبہ میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: غزہ میں انسانی بحران میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے: اقوام متحدہ

طلبہ کی زیرقیادت جنگ مخالف مظاہرے جو ملک بھر میں کیمپس میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں پھوٹ پڑے، ان کو ختم کرنے یا دوسری صورت میں مظاہروں کو کم کرنے کی کوششوں میں انہیں بار بار اسلاموفوبیا کا سامنا کرنا پڑا۔ سی پپی ایچ بی کے ڈائریکٹر عثمان خان نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ گزشتہ سال اسلامی عقیدے کے اندر مختلف نسلوں کے کالج کے طلبہ کیلئے انتہائی تکلیف دہ رہا ہے، کیونکہ انہوں نے بہادری کے ساتھ کھڑے ہونے اور فلسطینیوں کی حالت زار کو انسانی بنانے کا انتخاب کیا، جو ۷۵؍ سال سے ظلم، غیر انسانی اور جنگ کا شکار ہیں۔ ان طلبہ کو محض درخواست، اسمبلی اور تقریر کے اپنے آئینی طور پر محفوظ حقوق پر عمل کرنے کیلئے ہراساں نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی ممکنہ تعلیمی اور مستقبل کے روزگار کے نتائج سے ڈرنا چاہئے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہندوستانی تاریخ پردستی کتاب میں اسلام اور مسلمانوں کو نظر انداز کرنے پر تنازع

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے طالب علم سمر نے کہا کہ بہت سے مسلمان طلبہ نے اپنے کالج کی کمیونٹیز میں خود کو الگ تھلگ محسوس کیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے اسرائیل کی جنگ میں اپنے دوست اور خاندان کو کھو دیا ہے۔ کچھ طلبہ، جب کلاس میں تھے، تو انہیں غزہ میں اپنے عزیزوں کو کھونے کی خبریں موصول ہوئیں۔ کیا ایسے میں اظہار یکجہتی ظلم ہے؟ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK