مسلم منافرت پر مبنی بیان دینے والے جج کیخلاف کانگریس نے ۳۰؍ سے زائد اراکین کے دستخط حاصل کرلئے ، اسی سرمائی اجلاس میں تحریک پیش کی جائے گی
EPAPER
Updated: December 11, 2024, 10:42 PM IST | Allahabad
مسلم منافرت پر مبنی بیان دینے والے جج کیخلاف کانگریس نے ۳۰؍ سے زائد اراکین کے دستخط حاصل کرلئے ، اسی سرمائی اجلاس میں تحریک پیش کی جائے گی
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے مسلمانوں کے خلاف منافرت پر مبنی بیان دے کر زبردست تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اب ان کے خلاف کئی محاذ پر کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے پورے معاملے کی تفصیل طلب کی ہے، دوسری طرف ان کے خلاف کئی وکلاء بھی پٹیشن داخل کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو تیسری جانب ان کے خلاف تحریک مواخذہ لانے کی تیاری چل رہی ہے۔ کانگریس پارٹی نے اس کے لئے باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ ایک جج کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنے نفرت انگیز خیالات کا اظہار کھلے عام کرے ۔ ان کے بیانات آئینی ، قانونی اور انسانی اخلاقیات کے خلاف تھے ۔
تحریک کیا ہے ؟
جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے کانگریس نے اراکین پارلیمنٹ کا دستخط لینے شروع کر دیا ہے۔ اس بارے میں کانگریس رکن پارلیمنٹ وویک تنکھا نے بتایا کہ کہ اب تک راجیہ سبھا کے ۳۰؍ سے زائد اراکین کے دستخط لئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پارلیمنٹ کے موجودہ سرمائی اجلاس میں ہی تحریک مواخذہ کے لئے نوٹس دیا جائے گا تاکہ اس ذہنیت کے افراد کو ملک کی عدلیہ سے باہر نکالنے کی کارروائی فوری طور پر کی جاسکے۔
تحریک کیسے پیش کی جائے گی ؟
جہاں تک تحریک مواخذہ پیش کرنے کے اصول و ضوابط کا سوال ہے تو قانون کے مطابق کسی بھی جج کے خلاف یہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میںتحریک مواخذہ لانے کے لئے ۱۰۰؍ لوک سبھا اراکین اور ۵۰؍ راجیہ سبھا اراکین کی منظوری ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی مواخذہ کے لئے نوٹس جاری کیا جائے گا۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ مطلوبہ حمایت حاصل کرلے گی اور یہ تحریک لاکر رہے گی۔
پارٹی کا موقف
پارٹی لیڈر وویک تنکھا نے کہا کہ یہ معاملہ مسلم منافرت پر مبنی اور انتہائی سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی چاہتی ہے کہ ایسے افراد جو غیر جانبداری سے کام نہ کرسکیں انہیں کسی بھی آئینی عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں مواخذہ کے لئےنوٹس دیں گے اور امید ہے کہ ہمارے نوٹس کو برسراقتدار طبقے کے لوگوں کی بھی حمایت حاصل ہو گی۔انہوں نے تحریک مواخذہ کی قرار داد پیش کرنے کے لئے جلد ہی مطلوبہ دستخط حاصل کرلینے کا بھی دعویٰ کیا۔
معاملہ کیا ہے ؟
یاد رہے کہ جسٹس شیکھر یادو نے گزشتہ اتوار کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں منعقدہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے تعلق سے کئی قابل اعتراض باتیں کہی تھیں۔ اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ تنازع بہت بڑا ہو گیا کیوں کہ انہوں نے جو باتیں کہی تھیں وہ مذہب سماج اور جمہوریت کے لئے نہایت خطرناک تھیں۔
اپوزیشن کا شدید اعتراض
کئی اپوزیشن لیڈران نے جسٹس شیکھر کے بیان پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ راجیہ سبھا رکن اور سینئر وکیل کپل سبل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس معاملے میں تحریک مواخذہ کا نوٹس دیا جائے گا اور یہ بہت ضروری کارروائی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی جج اس طرح کا بیان دیتا ہے تو وہ اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اگر وہ عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اسے اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کیا کہتا ہے ؟
کسی جج کے مواخذہ کے تعلق سے سپریم کورٹ کے اپنے ضوابط ہیں۔ اس کے تحت چیف جسٹس سب سے پہلے نوٹس لیتے ہیں اور اس کے بعد جج کے جواب کے مطابق آگے کی کارروائی کرتے ہیں۔