دہلی پولیس نے ان افراد کیخلاف مذہبی منافرت کو بڑھانے کے مقصد سے ویڈیو شیئر کرنے کا معاملہ درج کیا ہے ، غازی آبادمیں درج شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر کی گئی
EPAPER
Updated: June 18, 2021, 10:15 AM IST | New Delhi
دہلی پولیس نے ان افراد کیخلاف مذہبی منافرت کو بڑھانے کے مقصد سے ویڈیو شیئر کرنے کا معاملہ درج کیا ہے ، غازی آبادمیں درج شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر کی گئی
غازی آباد میں ایک بزرگ شخص کو زدو کوب کرنے اور ان کی ڈاڑھی کاٹنے کے معاملے یوپی حکومت پوری طرح سے تنقیدوں اور سوال کی زد پر ہے جبکہ اس معاملے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ اسی کے تحت چند معروف شخصیات کیخلاف کیس درج کروایا گیا ہے۔دہلی پولیس نے اداکارہ سورا بھاسکر ، صحافی عارفہ خانم شیروانی ، آصف خان اور ٹویٹر انڈیا کے ایم ڈی منیش مہیشوری کے خلاف شکایت درج کی ہے کہ انہوں نے مذہبی منافرت پھیلانے والا ویڈیواپنے ٹویٹر سے شیئر کیا۔
اس سلسلے میں وکیل امیت آچاریہ نے دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی تھی۔ تاہم ، اس شکایت پر ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ ادھر دہلی پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔اس سے پہلے ، اتر پردیش پولیس نے مائکروبلاگنگ سائٹ ٹویٹر ، ایک نیوز پورٹل اور چھ افراد کے خلاف سوشل میڈیا پر ویڈیووائرل کرنے کے معاملے میں مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کیلئے شیئر کیا گیا تھا ۔
موصولہ اطلاع کے مطابق پولیس نے غازی آباد کے لونی بارڈر تھانے میں شکایت درج کی تھی اور اسی بنیاد پر منگل کی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ویڈیو فرقہ وارانہ بدامنی پھیلانے کے ارادے سے شیئر کیا گیا ہے۔ پولیس نے ٹویٹر انڈیا ، نیوز ویب سائٹ دی وائر، صحافی محمد زبیر اور رعنا ایوب ، کانگریس کےلیڈر سلمان نظامی ، مشکور عثمانی ، ڈاکٹر شمع محمد اور مصنف صبا نقوی کے خلاف ویڈیو کلپ شیئر کرنے پر ایف آئی آر درج کی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ’’ان لوگوں نے معاملے کی سچائی کی تصدیق نہیں کی اور عوامی امن میں خلل ڈالنے اور مذہبی گروہوں کو تقسیم کرنے کے ارادے سے فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے اسے آن لائن شیئر کیا۔ دریس اثناءپریس کلب آف انڈیا نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر منسوخ کی جائےکیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غازی آباد پولیس کے ذریعہ `انتقامی کارروائیوں کی ایک کوشش ہے۔اس کے ذریعے `دہشت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ کوئی صحافی سچ دکھانے یا شیئر کرنے کی ہمت نہ کرے۔