• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ میں اتوار سے جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی کا بھی معاہدہ، جشن کا ماحول

Updated: January 16, 2025, 12:02 PM IST | Doha

اس جنگ بندی یا معاہدے کا اعلان قطر نے کیا، معاہدے پر عملدرآمد اتوار(۱۹؍ جنوری) سے ہوگا، معاہدے کے پہلے مرحلے کےتحت اسرائیل تقریباً۲؍ ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، اہل غزہ اور اسرائیلی عوام نے معاہدے کا خیر مقدم کیا اورجشن منایا۔

An emotional woman could not control her tears after the ceasefire agreement. Photo: INN.
جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک خاتون فرط جذبات میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی۔ تصویر: آئی این این۔

آخر کا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ اس جنگ بندی یا معاہدے کا اعلان قطر نے کیا۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد اتوار سے ہوگا جس کے بعد۱۵؍ ماہ سے جاری جنگ ختم ہوجائے گی۔ قطر کے وزیر اعظم نے دوحہ میں اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیل جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے کےتحت اسرائیل تقریباً۲؍ ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں ۲۵۰؍ قیدی بھی شامل ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان چھ ہفتوں کے دوران، تقریباً ۱۰۰؍یرغمالیوں میں سے۳۳؍ کو مہینوں کی قید کے بعد رہا کیا جائے گا۔ حالانکہ یہ کہا جانا ممکن نہیں ہے کہ ان میں سبھی زندہ ہیں۔ اس سے قبل تین امریکی اور ایک حماس کے عہدیدار نے تصدیق کی کہ معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے تاہم، اسرائیلی وزیراعظم کے آفس کا کہنا ہے کہ معاہدے کی حتمی جزئیات طے کی جارہی ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ’امید ہے معاہدے کی جزئیات کو آج رات ختمی شکل دی جائے گی۔ معاہدے کے ساتھ ہی غزہ میں ۱۵؍مہینے سے جاری جنگ ختم ہو جائے گی۔ 
سوال جن کا جواب ابھی نہیں مل سکا
ابھی یہ واضح نہیں کہ کب اور کتنے بے گھر فلسطینی غزہ واپس آ سکیں گے، کیا اس معاہدے کے بعد غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو گی بھی یا نہیں اور آیا اسرائیل غزہ سے اپنی فوج مکمل طور پر نکالے گا یا نہیں۔ یہ نکات حماس کے بنیادی مطالبات ہیں جن کے بدلے وہ تمام یرغمال افراد کو رہا کرے گا۔ ابھی تک جنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں جن میں غزہ کی دوبارہ بحالی اور آبادکاری کی نگرانی کون کرے گا۔ اس کے باوجود معاہدے کے اعلان سے اس بات کی امید ہو چلی ہے کہ شاید حماس اور اسرائیل ڈیڑھ برس سے جاری اس تباہ کن جنگ کو سمیٹ رہے ہیں۔ 
قیدیوں کا تبادلہ ہوگا 
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ہفتوں پر محیط تکلیف دہ مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کے مطابق حماس درجنوں اسرائیلی یرغمال افراد کو رہا کرے گا جس کے بدلے میں اسرائیل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو چھوڑے گا۔ معاہدے کے مطابق غزہ جنگ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے۔ جنگ بندی معاہدے کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ کی منظوری درکار ہو گی تاہم، توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ معاہدے کے بعد فوری طور پر چھ ہفتوں کی جنگ بندی ہو گی جس کے دوران جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔ قطری وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ لڑائی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔ ان کا کہنا تھا’ ثالثی کرنے والے تینوں ممالک قاہرہ میں قائم ایک باڈی کے ذریعے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کریں گے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا اس پیش رفت پر ’پرجوش‘ ہوں۔ یہ معاہدہ غزہ میں لڑائی کو روک دے گا۔ فلسطینی شہریوں کیلئے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ کرے گا اور یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملائے گا۔ 
معاہدے کے اہم نکات
جنگ بندی کے ابتدائی چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔ 
جنگ بندی کے دوران روزانہ غزہ میں ۶۰۰؍ ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی جن میں سے۵۰؍ ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور۳۰۰؍ ٹرک شمال کیلئے مختص ہوں گے۔ 
حماس ۳۳؍ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے اور۵۰؍ سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔ 
حماس پہلے خواتین قیدیوں اور۱۹؍ سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گی، جس کے بعد ۵۰؍ سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو۔ 
اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے ۳۰؍فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے۵۰؍ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ 
اسرائیل سات اکتوبر، ۲۰۲۳ءکے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور۱۹؍ سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔ 
رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد۹۹۰؍ سے۱۶۵۰؍ قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ 
پہلے مرحلے کے ۱۶؍ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کیلئے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔ 
تیسرےمرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔ 
غزہ میں جشن کا ماحول
جیسے ہی معاہدےکی خبر پھیلی تل ابیب میں مظاہرین نے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جبکہ غزہ بھر میں ہزاروں افراد نے اس معاہدے پر جشن منایا۔ غزہ میں بے گھر ہونے والے النصیرات پناہ گزین کیمپ میں ۴۵؍ سالہ راندا سمیح نے کہا ’’مجھے یقین نہیں کہ ایک سال سے زیادہ کا یہ ڈراونا خواب آخر کا ر ختم ہو رہا ہے۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے، ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ ایک فلسطینی خاتون نے کہا کہ میں خوش ہوں اور میں رو رہی ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ حماس کا کہنا ہےکہ جنگ بندی ہمارے عظیم فلسطینی عوام کی بے مثال ثابت قدمی اور غزہ پٹی میں پندرہ ماہ سے زیادہ کی ہماری جراتمندانہ مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ 
طویل سفارت کاری کا نتیجہ : بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج امریکہ کی جانب سے کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد مصر اور قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی، فلسطینی شہریوں کیلئے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ ہوگا اور قیدیوں کو۱۵؍ ماہ سے زائد عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے گا۔ امریکی ترجمان میتھیو ملر نے پریس کانفرنس میں کہا جنگ بندی کا یہ معاہدہ صدر بائیڈن، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون، سینٹرل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ولیم برنز، بریٹ میک گرک اور حکومت کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ ساتھ قطر اور مصر کی حکومتوں میں ہمارے شراکت داروں کی وسیع سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔ 
ہندوستان نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کیا
ہندوستان نے جمعرات کو اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا اور بات چیت اور سفارت کاری کے راستے پر واپسی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ وزارت خارجہ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ ہم یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ’’ہمیں امید ہے کہ اس سے غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد کی ایک محفوظ اور پائیدار فراہمی ہو گی۔ ہم نے مسلسل تمام یرغمالیوں کی رہائی، جنگ بندی اور مذاکرات اور سفارت کاری کے راستے پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK