Inquilab Logo Happiest Places to Work

وقف قانون پر مرکز کا جواب داخل، تمام عرضیاں رد کرنے کا مطالبہ

Updated: April 25, 2025, 11:00 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ میں داخل کئےگئے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ ’’ہندو اداروں اور وقف بورڈ کا موازنہ درست نہیں ہے‘‘

Supreme Court of India
سپریم کورٹ آف انڈیا

وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر مرکزنے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کر دیا ہے۔مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور نے عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ جمع کر عدالت میں  اس قانون کے خلاف دائر عرضیوں میں عائد کردہ سبھی الزامات کو مسترد کیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ وقف قانون سے کسی بھی طرح کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ حکومت نے  عدالت سے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کسی قانون میں موجود التزام پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے روک نہ لگائے اور نہ ہی وہ لگاسکتا ہے کیوں کہ یہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت گردانا جائے گا۔حکومت نے مشورہ دیا کہ عدالت وقف معاملے پر عارضی روک لگاتے ہوئے پوری سماعت کرنے کے بعد آخر میں کوئی فیصلہ کرے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس آئینی جواز کی جانچ کی طاقت ہے لیکن پارلیمنٹ نے جس قانون کو پاس کیا ہے اس پر یا اس کے التزامات  پر  روک لگانا آئینی طور پر مناسب نہیں ہو گا ۔
 مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں داخل حلف نامہ میں کئی نکات پیش کئے ہیں۔مرکز نے کہا ہے کہ  سپریم کورٹ میں داخل عرضیوں میں کسی بھی انفرادی معاملے میں ناانصافی کی شکایت نہیں کی گئی ہے، ایسے میں یہ کسی شہری حقوق کا مسئلہ نہیں ہے۔ہندو مذہبی اداروں کے مینجمنٹ سے موازنہ کرنا بے بنیاد ہےکیوں کہ دونوں ہی ادارے مختلف ہیں۔ وقف ترمیمی قانون مسلم سماج کی بہتری اور شفافیت کیلئے لایا گیا  ہے جس سے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔  وقف ترمیمی قانون اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وقف ملکیت کی شناخت، زمرہ بندی اور ریگولیشن قانونی پیمانوں اور عدالتی نگرانی کے ماتحت ہونا چا ہئے۔ اس حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف قانون کا ڈیزائن یہ یقینی  بناتا ہے کہ کسی بھی شخص کو عدالت کی پہنچ سے محروم  نہ کیا جائے۔وقف قانون یہ بھی یقینی  بناتا ہے کہ شہریوں کی ملکیت کے حقوق، مذہبی آزادی اور عوامی عطیہ کو متاثر کرنے والے فیصلے غیر جانبداری اور جواز کی حدوں کے اندر کئے جائیں۔قانون میں کی گئی ترامیم کی منشا  عدالتی جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنانے کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK