اپوزیشن لیڈروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوگی نے کہا کہ یہ اپنے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں لیکن دوسروں کیلئے اردو کی وکالت کرکے انہیں مولوی بنانا چاہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: February 19, 2025, 1:53 PM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow
اپوزیشن لیڈروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوگی نے کہا کہ یہ اپنے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں لیکن دوسروں کیلئے اردو کی وکالت کرکے انہیں مولوی بنانا چاہتے ہیں۔
اترپردیش اسمبلی میں اُس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا جب وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے اردو پڑھنے والوں کو ’کٹھ ملا‘ قرار دیا۔ سماجوادی پر تنقید کے بہانے انہوں نے ایک زبان اور اس کے ساتھ ہی پوری ایک قوم کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا دیا۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بچے کو انگریزی میں پڑھائیں گے اور دوسروں کو اردو میں پڑھانےکی وکالت کر کے ملک کو’ کٹھ ملا پن‘ کی طرف لے جائیں گے، ایسا نہیں چلے گا۔
منگل کو ایوان کی کارروائی کےدوران حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اراکین اسمبلی اب بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی میں بھی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایوان کی بحث کومذکورہ سبھی بولیوں کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کیا جائےگا۔حکومت کے اس فیصلے پر اپوزیشن کی اہم جماعت سماجوادی پارٹی نے اعتراض جتایا۔سماجوادی پارٹی کے اراکین نے حکومت پر الزام عائد کیا وہ بولیوں کو تو فروغ دینے کی بات کرتی ہے لیکن ریاست کی ایک بڑی زبان ’اردو‘ کو کچلنے کی کوشش کررہی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے مذکورہ بولیوں کے ساتھ ہی اردو زبان کو بھی جگہ دینے کا مطالبہ کیا۔سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اوراسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں، اسلئے اسے اسمبلی کی کارروائی میں شامل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ انگریزی نہیں جانتے، اسلئے انگریزی کو مسلط کرنا غیر مناسب ہے۔ ان کے اس مطالبے پر سماجوادی پارٹی کے اراکین نے بھی حمایت کا اظہار کیالیکن حکومت اس مطالبے پر چراغ پا ہوگئی ۔
اس کے جواب میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے نہایت بے تکا بیان دے کر ایک پوری قوم کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی کے لیڈران اپنے بچوں کو تو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں مگر دوسروں کیلئے وہ اردو کی وکالت کرتے ہیں۔اس طرح یہ لوگ دوسروں کو مولوی بنا کر ملک کو کٹھ ملا پن کی طرح لے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سماجوادیوں کا کردار دُہرا ہوگیا ہے، وہ ملک کو ’کٹھ ملّا پن‘کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، بچوں کو مولوی بنانا چاہتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپوزیشن پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ہماری حکومت بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی زبانوں کیلئے الگ الگ اکادمیاں بنا رہی ہے تاکہ وہ ترقی کر سکیں مگر سماجوادی پارٹی اتر پردیش کے ثقافتی ورثے کے خلاف ہے اور یہ ہر اچھے کام کی مخالفت کرتی ہے۔یوگی کی اشتعال انگیزی پرسماجوادی پارٹی کے اراکین نے سخت برہمی کا اظہارکیا اورحکومت کےخلاف مظاہرہ کیا۔ یوگی کے اس بے تکے بیان کی قومی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ کانگریس نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے۔
اس ہنگامہ آرائی کے بعد ’ انقلاب‘ نے جب ایس پی کے ایم ایل ایز سے اس موضوع پر گفتگوکی تو انہوں نے حکومت کی منشا پرسوال کھڑے کئے اور حکومت کومتعصبانہ ذہنیت کی حامل قرار دیا۔رکن اسمبلی ضیاءالدین رضوی نےحکومت سے سوال کیا کہ جب ہندی اور اردو دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں تو ایک کےساتھ سوتیلا رویہ کیوں ؟ جبکہ اردو کو یوپی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ضیاءالدین رضوی نے اردو کو ’کٹھ ملّا کی زبان‘ قرار دیئےجانے پروزیراعلیٰ یوگی پر سخت ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ خود اور ان کی پارٹی کے دیگر لیڈران بھی اپنی تقریروں میں اردوکا استعمال کرتے ہیں مگر جب اردو کے فروغ کی بات آتی ہے تو حکومت کی ذہنیت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس زبان کے ساتھ ساتھ ،مسلمانوں کے بھی خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت تعلیم سے اردو کو ختم کرنے پرآمادہ ہے،اسلئے’ بیسک شکشا پریشد‘ کےکئی اسکولوں کا نام بھی بدل دیا گیا۔
سماجوادی پارٹی کے سینئرایم ایل اے کمال اخترنےبھی وزیراعلیٰ یوگی کے بیان پرسخت اعتراض جتایا۔ انہوں نے کہا کہ اردو کسی ایک دھرم اور مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ سبھی لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی بولیوںکے خلاف نہیں ہے مگرانگریزی کے خلاف ہمیشہ سے رہی ہے اور موجودہ حکومت ایوان کی کارروائی کو انگریزی میں ترجمہ کراکرریاست میں ’انگریزیت‘ لانا چاہتی ہے جبکہ آج تک کسی بھی ممبراسمبلی نے ایوان میں انگریزی میں تقریرنہیں کی ہے۔ انہوں نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ انگریزی کی جگہ اردو اور سنسکرت کو شامل کیا جائے۔ سماجوادی پارٹی کے ایک دیگر رکن اسمبلی آرکے ورما نےبھی کمال اخترکے مطالبہ کی تائیدکی اورکہا کہ اردو اور سنسکرت ہندوستان کی زبان ہے جبکہ انگریزی غیرملکی زبان ہے جس کی ہمیشہ سے سماجوادی پارٹی نے مخالفت کی ہے۔۱۹۸۶ء میں سبھی پارٹیوں کےاراکین اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے انگریزی اسمبلی سے باہرکردی گئی تھی مگر اب بی جے پی حکومت ملکی زبانوں کی جگہ پر انگریزی اور انگریزیت کوبڑھاوا دینا چاہتی ہے۔