• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چینی سائنسدانوں کا ٹائپ وَن ذیابیطس کا علاج ڈھونڈ لینے کا دعویٰ

Updated: October 02, 2024, 1:50 PM IST | Agency | Beijing

ذیابیطس سے متاثرہ ۲۵؍ سالہ خاتون ’ری پروگرامڈ‘ اسٹیم سیل کے ٹرانسپلانٹ کے بعد پوری طرح صحتمند ہوگئی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

چین کے سائنسدانوں نے ’ری پروگرامڈ ‘اسٹیم سیل کے ٹرانسپلانٹ کے ذریعہ ٹائپ ون ذیابیطس کا علاج ڈھونڈ لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ عالمی سطح پر بڑی کامیابی کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ 
سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک ۲۵؍سالہ خاتون جو گزشتہ ایک دہائی سے ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثر تھی، کا مذکورہ تکنالوجی سے علاج کیا گیا اور ڈھائی ماہ بعد خاتون کا جسم اپنا بلڈ شوگر منضبط رکھنے میں پوری طرح کامیاب رہا اور اسے بیرونی ادویات کی ضرورت نہیں پڑی۔ ا س کی اطلاع شنگھائی کے ایک نیوز پورٹل ’دی پیپر‘ نے دی ہے۔ سائنسدانوں  کے مطابق اس سلسلے میں کئے گئے آپریشن میں مشکل سے آدھا گھنٹہ لگا ہے۔ یہ کامیابی تیان جِن فرسٹ سینٹرل اسپتال اور پیکنگ یونیورسٹی نے ایک مشترکہ پروگرام میں حاصل کی ہے۔ ذیابیطس پوری دنیا کیلئے اہم طبی مسئلہ ہے اور چین اس معاملے میں سرفہرست ہے۔ پوری دنیا میں ذیابیطس کے سب سے زیادہ مریض چین میں  ہی ہیں جن کی تعداد ۱۴۰؍ ملین ہے اور اس میں  ۱۲؍ فیصد کا سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:ایرانی خفیہ ایجنسی میں موساد کی گھس پیٹھ، اسرائیل مخالف اکائی کا سربراہ ڈبل ایجنٹ نکلا

ٹائپ ون ذیابیطس کا حصہ ذیابیطس کے تمام معاملات میں ۵؍ فیصد ہے۔ سائنسدانوں  کا کہنا ہےکہ انہوں نے ایک خاتون میں ٹائپ ون ذیابیطس کو ایک پائینرنگ اسٹیم سیل کی پیوندکاری کے ذریعے ختم کردیا ہے۔ تیان جِن سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون ۱۰؍ برسوں سے انسولین کے انجکشن پرمنحصر تھی اور شوگر کو قابو میں  رکھنے کیلئے اپنی خوراک کی بھی مانیٹرنگ پر مجبور تھی۔ سائنسدانوں  نے اس کے جسم کے خلیوں کا استعمال کر کے جو علاج کیا ہے اس کے بعد اس کے جسم نے انسولین خود بنانا شروع کر دیا ہے۔ مذکورہ خاتون کاکہنا ہے کہ اب وہ نہ صرف چینی کھا سکتی ہے بلکہ ہر چیز کا لطف لے سکتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ اس کامیابی پردنیا بھر کے کئی سائنسدانوں  نے خوش کا اظہار کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK