بارہمولہ میں گزشتہ دنوں سیکوریٹی چیک پوسٹ عبور کرنے پر فوج کی فائرنگ میں مارے گئے نوجوان وسیم احمد میر کی والدہ ماتم کناں ہیں،وسیم گھر میں اکیلا کمانے والا تھا۔
EPAPER
Updated: February 10, 2025, 10:20 AM IST | Agency | Srinagar
بارہمولہ میں گزشتہ دنوں سیکوریٹی چیک پوسٹ عبور کرنے پر فوج کی فائرنگ میں مارے گئے نوجوان وسیم احمد میر کی والدہ ماتم کناں ہیں،وسیم گھر میں اکیلا کمانے والا تھا۔
شمالی کشمیر کے سوپور پولیس ضلع کے گوری پورہ گاؤں میں بدھ(۵؍ فروری )کی شام کو اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے ۲۷؍ سالہ نوجوان ٹرک ڈرائیور وسیم احمد میر نے اپنی ماں نثارہ بیگم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کولکاتا سے واپس آنے کے بعد اسے کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جائے گا۔ اس سال کشمیر میں سردیوں کے آغاز سے ہی نثارہ بیگم اپنے پیروں میں کمزوری کی شکایت کررہی تھیں۔ وسیم احمد میر کے کزن راشد رشید نے کہا کہ خاندان کے سب سے بڑے بیٹے کی حیثیت سے وہ (وسیم) اپنے والدین کا بہت خیا ل رکھتا تھا۔
جمعرات کی صبح، سیکوریٹی فورسیز نے گوری پورہ گاؤں کے چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں تاکہ وسیم کا جلوس جنازہ پُر امن رہے جس کی بدھ کی رات سری نگر-بارہمولہ ہائی وے پر سنگراما علاقے میں فوج کی جانب سے فائرنگ میں موت ہوگئی تھی۔ وسیم کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جب اس کے ٹرک نے ایک سیکوریٹی چیک پوائنٹ کو عبورکیاتھا۔
نیوز پورٹل ’دی وائر‘ سے بات کرتے ہوئے راشد رشید نے کہا کہ وسیم میر بدھ کی شام سیب کیلئے مشہورقصبے سوپور میں کشمیری سیبوں کے تقریباً۸۰۰؍ ڈبے اپنے ٹرک میں بھرنے کے بعدتھوڑی دیر کیلئے گھر آیا تھا۔ سیبوں کی کھیپ کولکاتا لے جانے سے پہلے وہ سری نگر جا رہا تھا جہاں ا سےٹرک کے مالک کو لینا تھا ۔ ’مالک ‘ کی شناخت فی الحال معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ چیک پوائنٹ پرفائرنگ بدھ کی رات تقریباً ساڑھے ۱۰؍بجے کی گئی۔
رشید کے مطابق ’’وسیم احمد میر کی فیملی کوبدھ کی آدھی رات کو ٹرک کے مالک کا فون آیا جس سے مقامی پولیس نے رابطہ کیا تھا اور انہیں بتایا کہ میر کے ساتھ سری نگر بارہمولہ ہائی وے پر ایک ’حادثہ ‘ ہوا ہے اور اسے تشویشناک حالت میں بارہمولہ کے گورنمنٹ میڈیکل کالج لے جایا گیا ہے۔ جب لواحقین اسپتال پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ میر مبینہ طور پر فوج کی فائرنگ میں مارا گیا ہے۔ انہوں نے پوسٹ مارٹم کے بہانے اس کی لاش ۱۲؍ گھنٹے بعد لواحقین کے حوالے کی۔ ہمیں اگلے دن دوپہر تک اسپتال میں انتظار کرنا پڑا۔ ‘‘ فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ میر جو ٹرک چلا رہا تھا اس نے سیکوریٹی چوکی کو پار کرلیا تھاجس کے بعد سوپور سے ۲۳؍ کلومیٹر تک اس کا پیچھا کیاگیا، اس کے بعدفوجیوں نے ٹرک کے ٹائروں پر گولیاں چلائیں جس کے بعدسری نگر بارہمولہ ہائی وے پر سنگراما چوک پرٹرک رُک گیا۔
مقتول وسیم کے گھر کے باہرخواتین گریہ وزاری کررہی ہیں ۔(تصویر،بشکریہ ’دی وائر‘)
رشید نے اس معاملے میں کہا ’’ پورےٹرک پردرجنوں راؤنڈ فائر کئے گئے تھے۔ راستے میں درجنوں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں (فوج) کو چاہئے کہ ہمیں اس کا فوٹیج دکھلائے۔ رشید نے مزید بتایا کہ ’’وسیم اپنے خاندان کا اکیلا کمانے والا تھا ۔ ا س کے خاندان میں اس کے والد عبدالمجید میر جو جزوی طور پر مستری کا کام کرتے ہیں، والدہ جو خاتون خانہ ہیں، دو چھوٹے بھائی، شفقت مجید اور عرفان مجید جو بالترتیب سوپور میں کپڑے کی دکان پر سیلز مین اور ایک ہوٹل میں ہاؤس کیپنگ سپروائزر کے طور پر کام کرتا ہے، اور ایک چھوٹی بہن ہےجو بے روزگار ہے۔ وسیم کی موت نے اس کے گھروالوں کوایک عظیم صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قصورواروں کی نشاندہی کرے اور ایک بے گناہ کو قتل کرنے والوں کا احتساب کرے۔ گاؤں میں کسی سے پوچھو تو وہ بتائے گا کہ وہ(وسیم) شریف آدمی تھا۔ اس کی موت نہ صرف اس کے خاندان کیلئے بلکہ پورے کشمیر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ‘‘ جمعرات کی صبح جیسے ہی گاؤں میں اس اندوہناک قتل کی خبر پھیلی، بڑی تعداد میں خواتین گوری پورہ میں متاثرہ خاندان کے یک منزلہ مکان پر اظہار تعزیت کیلئے جمع ہوگئیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ میر کی والدہ نثارہ بیگم صدمے سے بری طرح نڈھال تھیں۔ وہ ماتم کناں تھیں اور اپنے بیٹے کے المناک انجام پر بے تحاشا روتی رہیں جب کہ دیگر خواتین انہیں تسلی دیتی رہیں۔ وہ کہتیں کہ ’’اب ہمارا خیال کون رکھے گا بیٹا؟ اب مجھے ڈاکٹر کے پاس کون لے جائے گا؟ تم مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ ‘‘عینی شاہدین نے بتایا کہ مقتول نوجوان کی لاش کو تدفین کیلئے اہل خانہ کے حوالے کرنے میں حکام کی جانب سے مبینہ تاخیر پر سوگوار ناراض تھے۔ ایک خاتون نے کہا کہ ’’اس نے ایسا کیا کر دیا کہ اس کی لاش واپس نہیں کی جا رہی ہے؟ وہ فوج کے ہاتھوں مارا گیا اور اب وہ ہمیں اسے آخری بار دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اگر وہ شدت پسند ہوتا تو بات سمجھ میں آتی۔ وہ بے قصور اور یومیہ اجرت کمانے والاایک عام شخص تھا۔ ‘‘سیکوریٹی فورسیز نے گاؤں کا محاصرہ کرلیاتھا اورصحافیوں کو بھی رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔ ایک بین الاقوامی خبررساں ایجنسی سے وابستہ صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ’’میں تصویریں لے رہا تھا جب ایک شہری نے مجھے ایک طرف کھینچ لیا اور مجھے یہ کہہ کر جانے کیلئے کہا کہ اسے پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے احکامات ملے ہیں۔ ‘‘بعد ازاں جمعرات کی سہ پہر میر کی لاش اہل خانہ کے حوالے کی گئی جس کے بعد اسے گوری پورہ گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔