بعض اضلاع بے حد امیر ہیں تو بعض انتہائی غریب، یعنی ترقی کے معاملے میں مساوات نہیں برتی گئی ہے
EPAPER
Updated: November 20, 2024, 11:51 AM IST | Mumbai
بعض اضلاع بے حد امیر ہیں تو بعض انتہائی غریب، یعنی ترقی کے معاملے میں مساوات نہیں برتی گئی ہے
مہاراشٹر کی جو موجودہ ریاست ہے، اس کی تعمیر کانگریس نے کی تھی ۔یکم مئی ۱۹۶۰ء سے ، جب ریاست مہاراشٹر کو بامبےاسٹیٹ سے الگ کیا گیا تھا، ۲۰؍ وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں (ان میں سےکچھ ایک سے دومرتبہ بھی بنے)۔ ان میں سے پانچ کے علاوہ تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے تھا۔ (میں شرد پوار کو شمار کرتا ہوں جو کبھی کانگریس کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک الگ الگ گروپ کانگریس (سوشلسٹ)کی نمائندگی کرتے تھے)۔ وہ پانچ جو مختلف پارٹیوں سے تھے ان میں منوہر جوشی، نارائن رانے، دیویندر فرنویس ، ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے تھے ۔ ان پانچوں نے مجموعی طورپر(ریاست کی تاریخ کے ۶۴؍ سال میں سے)تقریباً ۱۵؍ سال اس نشست پر قبضہ کیا۔ دیگر برسوں میں کانگریس پارٹی کا ایک وزیر اعلیٰ رہا۔
ریاستی اسمبلی کے آخری انتخابات نومبر۲۰۱۹ء میں ہوئے تھے ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تین وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان میں سے فرنویس اور ایکناتھ شندے مہایوتی کے ساتھ ہیں اور ٹھاکرے ایم وی اے کے ساتھ ہیں ۔ بی جے پی ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۴ء سے اقتدار میں ہے سوائے نومبر۲۰۱۹ء اورجون ۲۰۲۲ءکے درمیان۲؍ سال۲۱۴؍ دنوں کے جب شیوسینا، کانگریس اور این سی پی (ایم وی اے) کی مخلوط حکومت رہی ۔اس کے بعد بی جے پی نے شیو سینا اور این سی پی میں پھوٹ ڈالی، ایم وی اے حکومت کو گرا دیا اور اپنی مخلوط حکومت (مہایوتی) قائم کی۔
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے، بلاشبہ یہ کانگریس ہی تھی جس نے صنعت کاری میں مہاراشٹر کو نمبر ایک پوزیشن پر پہنچایا لیکن ریاست حالیہ برسوں میں `ترقی کے مختلف معیاروں پر پھسل گئی ہے: اعداد خود بولتے ہیں:
۲۳-۲۰۲۲ء میںمہاراشٹر کی شرح نمو۹ء۴؍فیصد تھی جو ۲۴-۲۰۲۳ء میںکم ہوکر۷ء۶؍فیصد پر رہ گئی ۔ ریاست کامحصول خسارہ ۲۳-۲۰۲۲ء میں ۱۹۳۶؍ کروڑ تھا جو۲۴-۲۰۲۳ء میںبڑھ کر۱۹۵۳۱؍ کروڑ تک پہنچ گیا ۔ مالیاتی خسارہ مذکورہ مدت کے دوران ۶۷۶۰۲؍ کروڑ سےبڑھ کرایک لاکھ ۱۱؍ ہزار ۹۵۶؍ کروڑ تک پہنچ گیا ۔کیپٹل اخراجات مذکورہ مدت میں ۸۵۶۵۷؍ کروڑ سے گھٹ کر۸۵۲۹۲؍ کروڑ تک رہ گئے ۔ زرعی ترقی مذکورہ مدت کے دوران ۴ء۵؍فیصد سےکم ہوکر۱ء۹؍ فیصد ہو گئی ۔ خدمات کے شعبے کا ا شاریہ مذکورہ مدت کےد وران ۱۳؍ فیصد سےکم ہو کر ۸ء۸؍فیصد تک رہ گیا ۔نقل وحمل ، تجارت اورمواصلات کے شعبے کا اشاریہ بھی مذکورہ مدت کےد وران ۱۳؍ فیصد سے گھٹ کر۶ء۶؍فیصد پرآگیا۔تعمیراتی ترقی مذکورہ مدت میںگھٹ کر۱۴ء۵؍ فیصد سےکم ہوکر۶ء۲؍ فیصدپرآگئی
بڑھتی ہوئی بے روزگاری
نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۱۰ء۸؍ فیصد ہے۔ شہری خواتین میں بے روزگاری کی شرح۱۱ء۱؍ فیصد ہے ۔ مہاراشٹر میں زیادہ تر روزگار کا ذریعہ خود روزگار ہے ۔ لاکھوں درخواست دہندگان ان چند سرکاری ملازمتوں کے خواہشمندہیں جن کا وقتاً فوقتاً اشتہار دیا جاتا ہے۔ پولیس کانسٹیبل/ڈرائیور کی ۱۸۳۰۰؍ اسامیوںاور تلاٹھی (گاؤںکا ایک افسر) کی۴۶۰۰؍ اسامیوں کیلئے۱۱-۱۱؍ لاکھ سے زیادہ امیدواروں نےدرخواست دی ہے۔ عالمی معیار کے کاروبار پیدا کرنے والی ملازمتوں کے مواقع مہاراشٹر میںپیدا کئے گئے اوریہاںملازمتوںکی فراہمی پر اتفاق بھی ہوگیا لیکن پھر حکومتوں کے ذریعے انہیں گجرات منتقل کرنے کے منصوبے بنائے گئےاورمنتقل کربھی دیاگیا۔ مثال کے طور پر ٹاٹا-ایئربس ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ کی فیکٹری اور ویدانتا-فوکس کون سیمی کنڈکٹر فیکٹری کی گجرات منتقلی ۔ ’گفٹ سٹی‘ کا تصوراورمنصوبہ ممبئی میںجبراً نافذ کیاجارہا ہے تاکہ ملک کی معاشی راجدھانی کی حیثیت سے ممبئی کو جو وقار حاصل ہے وہ مجروح کیاجائے اوراسے لوٹا جائے ۔
میں دو حوالوں سے مہاراشٹر کی معاشی ابتری کی وضاحت کرتا ہوں۔ مہاراشٹر میں جس کے چار الگ الگ خطے ہیں، یہاں اضلاع کے درمیان ایک وسیع تقسیم گہری خلیج ہے۔ ممبئی، پونے اور تھانے جیسے اضلاع بہت امیر اضلاع ہیں۔ دوسرے سرے پر نندوربار، واشم، گڈچرولی، ایوت محل ، ہنگولی اور بلڈانہ جیسے اضلاع ہیں جو غریب ہیں۔ انتہائی امیر اضلاع کی خالص ضلعی گھریلو پیداوار(این ڈی ڈی پی) انتہائی غریب اضلاع سے تین گنا زیادہ ہے۔ فی کس این ڈی ڈی پی میں فرق۱۲-۲۰۱۱ء ۹۷؍ ہزار۳۵۷؍ روپے سے بڑھ کر۲۳-۲۰۲۲ء میں۲ء۴؍ لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے ریاست کی مساوی ترقی کیلئے سراسر غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
ایک اور مثال کسانوں کی حالت زار ہے۔۲۰۲۳ء میں مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے۲۸۵۱؍ واقعات درج ہوئے۔ پیاز پر مرکزی حکومت کی پالیسی کو دیکھیں۔ سب سے پہلے اس نے برآمدات پر پابندی لگا دی۔ احتجاج کے بعد اس نے پابندی ہٹا دی لیکن کم از کم برآمدی قیمت ا ور۴۰؍ فیصد ایکسپورٹ ڈیوٹی عائد کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پیاز کے کاشتکاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور ہندوستان بین الاقوامی منڈی میں اپنا حصہ کھو بیٹھا۔ جولائی تک۱۵؍ لاکھ ٹن کی عام برآمد کے مقابلے امسال برآمد۲ء۶؍ لاکھ ٹن تھی۔
ریاست کی معیشت کی مجموعی بدانتظامی کے بارے میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ڈبل انجن والی حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ پہلا انجن ٹرین کو گجرات لے جا رہا ہے اور دوسرا انجن حرکت کرنے کے قابل نہیں ۔ اگر ووٹر مکمل طور پر معاشی ذہنیت اور رجحان رکھتا ہے تو و ہ اسی امیدواراور پارٹی کو ووٹ دے گا جو مہاراشٹر کی معیشت کو دیگر تمام پہلوؤں سے اوپر رکھے گی۔ مہاراشٹر کی معیشت ایک بہت قیمتی انعام کی حیثیت رکھتی ہے جسے کسی بھی حالت میں نظرانداز نہیںکیاجاسکتا۔