• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بی جے پی اور شیوسینا (ادھو) کارکنان کے درمیان جھڑپ

Updated: August 27, 2024, 5:23 PM IST | Agency | Aurangabad

اورنگ آباد میں آدتیہ ٹھاکرے کے قیام کے دوران بی جے پی والوں کا احتجاج، جواب میں شیوسینک بھی سڑک پر اترے، پولیس کا لاٹھی چارج،کچھ دیر کیلئے شہر میں کشیدگی۔

Police separating the two groups in Aurangabad. Photo: Agency
اورنگ آباد میں پولیس دونوں گروہوں کو الگ کرتے ہوئے۔ تصویر: ایجنسی

اور نگ آباد شہر میں بی جے پی اور شیوسینا ( ادھو ) کارکنان کے درمیان جم کر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حتیٰ کہ پولیس کو دونوں گروہوں کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ادھو ٹھاکرے کے فرزند اور شیوسینا (ادھو)  کے نوجوان رکن اسمبلی آدتیہ ٹھاکرے شہر کے راما ہوٹل پہنچے۔ جہاں وہ قیام کرنے والے تھے۔ بی جے پی کارکنان کو آدتیہ کے راما ہوٹل میں موجود ہونے کی اطلاع ملی تو وہ  ان کے خلاف احتجاج کرنے ہوٹل تک پہنچ گئے۔ ان کے مقابلے میں شیوسینا( ادھو) کار کنان بھی سڑکوں پر اتر آئے اور دونوں گروہوں  کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی۔
  یاد رہے کہ آدتیہ ٹھاکرے اس وقت اورنگ آباد  کے دورے پر ہیں۔ پیر کو وہ شہر کے ’راما‘ ہوٹل میں مقیم تھے۔ اسی دوران بی جے پی کے سیکڑوں کارکنان ہوٹل کے باہر جمع ہو گئے اور ان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ ان کا سوال تھا کہ ’دشا سالیان قتل ‘ معاملے میں آدتیہ ٹھاکرے کا موقف کیا ہے وہ واضح کریں۔ یاد رہے کہ بی جے پی کی جانب سے بار بار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ دشا سالیا ن کے قتل میں خود آدتیہ ٹھاکرے بھی کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔  پیر کو بھی بی جے پی ورکر اسی طرح کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دوران شیوسینا ( ادھو) کے کارکنان بھی ان کا سامنا کرنے سڑک پر اتر آئے۔ ودھان پریشد کے اپوزیشن لیڈر امبا داس دانوے خود شیوسینکوں کی قیادت کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں گروہوں کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی۔ پولیس کو مداخلت کرنی پڑ ی لیکن جب یہ دونوں گروہ قابو میں نہیں آئے تو   اسے لاٹھی چارج کرنی پڑی۔ 
 یاد رہے کہ معروف اداکار سشانت سنگھ راجپوت جنہوں  نے ۲۰۲۰ء میں خود کشی کی تھی، دشا سالیان ان کی سیکریٹری تھیں۔ سشانت کی موت سے کچھ دنوں قبل ہی دشا سالیان کی بلڈنگ سے گر کر موت ہوئی تھی جسے حادثہ قرار دیا گیا تھا۔ بی جے پی رکن اسمبلی نیتش رانے اکثر الزام لگاتے ہیں کہ دشا سالیان کی موت میں آدتیہ ٹھاکرے کا ہاتھ تھا۔ ان کا یہی الزام  اچانک اورنگ آباد میں آدتیہ ٹھاکرے کی آمد پر بی  جے پی والوں کو یاد آ گیا اور انہوں نے نوجوان رکن اسمبلی کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اس ہنگامے کی وجہ سے علاقے میں تھوڑی دیر کیلئے کشیدگی پیدا ہو گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ اورنگ آباد ایئر پورٹ پر  ایک روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف  بدلا پور سانحہ کے معاملے میں احتجاج کیا گیا تھا۔ بی جے پی کارکنان اسی کے جواب میں آدتیہ ٹھاکرے کے خلاف  پیر کو احتجاج کر رہے تھے۔ 
 آدتیہ ٹھاکرے کا رد عمل
  واقعے کےبعد آدتیہ ٹھاکرے نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بی جے پی کے احتجاج کو  بے معنی قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’ میرے پاس کوئی آئینی یا قانونی عہدہ نہیں ہے۔ اسلئے مجھ سے کسی معاملے میں سوال کرنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا بی جے پی کا یہ احتجاج غلط تھا۔ ‘‘ انہوں نےکہا ’’ وزیراعظم مودی کے خلاف ہم نے جو احتجاج کیا تھا وہ بدلا پور میں بچیوں کے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی کے تعلق سے تھا۔  اور یہ احتجاج  پُر امن تھا۔ اس میں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی۔ آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ بی جے پی بدنامی کی سیاست کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ بی جے پی جس لیڈر سے ڈرنے لگتی ہے اس کی بدنامی شروع کر دیتی ہے۔   ورنہ بی جے پی حکومت میں ابھی کل ہی پونے میں پولیس افسر پر کوئتے سے حملہ ہوا۔  بی جے پی حکومت میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے ہیں۔  ان کے لیڈر وامن مہاترے نے خاتون صحافی کے تعلق سے نازیبا کلمات ادا کئے مگر ان کی اب تک گرفتاری نہیں ہوئی ۔  اور یہ لوگ ہمارے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ‘‘ امباداس دانوے نے کہا ہے کہ بی جے پی والوں کو اپنےوزیر داخلہ سے جا کر سوال کرنا چاہئے جنہوں نے دشا سالیان معاملے کی جانچ بند کر دی ہے۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ دشا سالیان کی موت کے معاملےکی جانچ میں کیا حاصل ہوا؟
اس معاملے میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شیوسینا (ادھو) کے ترجمان سنجے رائوت نے کہا ہے کہ مہاراشٹر میں  ٹھاکرے خاندان پر انگلی اٹھانا ایسا ہی ہے جیسے تپتے سورج پر  تھوکنے کی کوشش کرنا۔ انہوں نے کہا ’’ بی جے پی کے اس احتجاج سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا سوائے اس کے کہ خود بی جے پی والوں کے مکھوٹے جل کر خاک ہو جائیں۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK