طلبہ بجرنگ دل کارکنان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے جنہوں نے گزشتہ دنوں کیمپس میں ہنگامہ کیا تھا۔
EPAPER
Updated: February 28, 2024, 9:51 AM IST | Agency | Aurangabad
طلبہ بجرنگ دل کارکنان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے جنہوں نے گزشتہ دنوں کیمپس میں ہنگامہ کیا تھا۔
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں منگل کے روز پولیس اور دلت طلبہ کے درمیان جھڑپ دیکھنے کو ملی۔ دلت طلبہ کی مختلف تنظیموں نے یونیورسٹی کیمپس میں ہنگامہ کرنے والے بجرنگ دل کارکنان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ’بھیم ٹولہ آندولن‘ ،منعقد کیا تھا جسے پولیس قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اطلاع کے مطابق گزشتہ ویلنٹائن ڈے (۱۴؍ فروری) کو یونیورسٹی میں بجرنگ دل کے ۳۰؍ تا ۳۵؍ کارکنان چہرے پر بھگوا مفلر لپیٹے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے تھے۔ انہوں نے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر طلبہ کی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی۔ دلت طلبہ تنظیموں کا مطالبہ تھا کہ پولیس بجرنگ دل کے ان کارکنان کو گرفتار کرے جو کہ پولیس نے اب تک نہیں کیا۔ بالآخر مختلف طلبہ تنظیموں نے منگل کو متحدہ طور پر احتجاج کیا جسے ’بھیم ٹولہ آندولن‘ کا نام دیا گیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں پولیس کارکنان بھی موجود تھے۔ احتجاج شدت اختیار کرتا جا رہا تھا مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی طلبہ سے گفتگو کیلئے نہیں آیا ۔ ۲؍ گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی کسی نے مظاہرین کی خبر نہیں لی۔ اس پر طلبہ میں ناراضگی بڑھنے لگی اور انہوں نے انتظامیہ کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ اسی دوران پولیس نے مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ۲؍ یا ۳؍ طلبہ لیڈروں کو اپنی تحویل میں لیا اس کی وجہ سے مظاہرین ناراض ہو گئے اوران کی پولیس کے ساتھ حجت ہو گئی۔
اس دوران سچن نکم نامی ایک دلت طالب علم نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر خود سوزی کی کوشش کی۔ پولیس اہلکاروں نے فوری طور پر اس پر قابو پایا اور اس اس اقدام سے باز رکھا۔ معاملہ بڑھتا دیکھ اورنگ آباد کے پولیس کمشنر نتن بگاٹے موقع پر پہنچے اور انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے کسی طرح معاملہ کو سلجھایا۔ طلبہ اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونیورسٹی کیمپس میں ہنگامہ کرنے والے بجرنگ دل کارکنان کے خلاف کارروائی کی جائے۔یاد رہے کہ اورنگ آباد میںواقع امبیڈکر یونیورسٹی میں امبیڈکر وادی، کمیونسٹ اور زعفرانی نظریات کے حامل طلبہ کی مختلف تنظیمیں سرگرم ہیں اس لئے آمنا سامنا بھی ہوتا رہتا ہے۔