مٹی کے نیچے ایک مٹکے میں محفوظ کرکے رکھے ہوئے ان سکوں پر آصف جاہی دور کے کئی شاہی نشانات اور علامات موجود ہیں۔
EPAPER
Updated: April 13, 2025, 1:55 PM IST | Z.A Khan | Nanded
مٹی کے نیچے ایک مٹکے میں محفوظ کرکے رکھے ہوئے ان سکوں پر آصف جاہی دور کے کئی شاہی نشانات اور علامات موجود ہیں۔
ناندیڑ شہر میں ایک قدیم مکان کی کھدائی کے دوران ریاست حیدر آباد (دکن) کے دور کے نایاب چاندی کے سکے دریافت ہوئے ہیں، جنہوں نے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ دریافت شدہ سکوں کی تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سکے آصف جاہی دور حکومت کے ہیں، جوریاست حیدرآبادکی شاندار اور طویل تاریخ کا اہم حصہ تھے۔
یہ سکے عربی و فارسی رسم الخط میں کندہ عبارتوں سے مزین ہیں جبکہ ان پر ر فنِ تعمیر کی شاہکار چارمینار اور مکہ مسجد جیسی عماتوں کے ڈیزائن سےبھی موجود ہیں، جو نظام سرکار کی ثقافتی و تہذیبی شناخت رہے ہیں۔ کچھ سکوں پر ’’ضرب حیدرآباد‘‘ کا شاہی نشان بھی موجود ہے، جو اس دور میں جاری ہونے والے سکوں پر عام تھا۔ ان سکوں کی دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ ناندیڑ تاریخی لحاظ سے نہ صرف ایک اہم تجارتی مرکز رہ چکا ہے بلکہ اس کا براہِ راست تعلق حیدرآباد دکن کی ریاست سےتھا۔
یہ سکے نہ صرف ماضی کی مالیاتی داستان بیان کرتے ہیں بلکہ اس وقت کی فنی مہارت، دھات کاری، اور خطاطی کی اعلیٰ مثال بھی پیش کرتے ہیں۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سکے ایک پرانی، نیم منہدم عمارت کے ملبے کے نیچے ایک مٹی کے برتن میں محفوظ تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی نے آڑے وقتوں کیلئے محفوظ کر رکھا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سکوں کی مزید تحقیق سے علاقائی تاریخ کے کئی پوشیدہ گوشے روشن ہو سکتے ہیں۔ فی الحال یہ سکے مقامی افراد کی تحویل میں ہیں، تاہم ماہرین کا مشورہ ہے کہ انہیں محفوظ رکھنے اور مزید مطالعے کیلئے قریبی عجائب گھر یا محکمۂ آثار قدیمہ کے حوالے کر دینا چاہئے، تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس قیمتی ورثے سے واقف ہو سکیں۔ یاد رہے کہ مراٹھواڑہ کے بیشتر اضلاع جیسے ناندیڑ اورنگ آباد، جالنہ اور لاتور وغیرہ دکن کی ریاست میں شامل تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب حیدر آباد ریاست کو ہندوستان میں شامل کیا گیا تو سارے اضلاع بکھر گئے، کچھ مہاراشٹر کے تو کچھ آندھرا پردیش ( غیر منقسم ) کے حصے میں آئے۔ ناندیڑ اب مہاراشٹر کا حصہ ہے۔
مذکورہ سکوں کے تعلق سے مقامی افراد میں جستجو ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سکوں کو محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کرنا زیادہ ضروری ہے تاکہ ایک شاندار تاریخ کا اہم حصہ رہ چکی ان نشانیوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ خبر لکھے جانے تک ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ محکمہ ٔ آثار قدیمہ تک ان سکوں کی خبر پہنچی ہو اور اس تعلق سے کوئی پیش قدمی ہوئی ہو البتہ پرانے مکانے کے نیچے سے ملے اس انمول ورثے کو دیکھ کر لوگ حیران ہیں۔