مالونی میں بیٹی کا سینٹر لگنے پر والد نےٹریفک کی پریشان یسے بچوں پر پڑنےوالے اثر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 11:09 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
مالونی میں بیٹی کا سینٹر لگنے پر والد نےٹریفک کی پریشان یسے بچوں پر پڑنےوالے اثر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
مالونی میں ٹریفک جام سے ایس ایس سی طلبہ کو امتحان سینٹروں تک جانے کیلئے ہونے والی دشواری کے تعلق سے وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس کے دفتر میں ای میل کرکے شکایت کی گئی ہے ۔چارکوپ کاندیولی کی اسمیتا جیوتی بلڈنگ میں رہنے والے الیاس احمد نے اپنی بیٹی اور دیگر طلبہ کی پریشانی سے سی ایم آفس کو آگاہ کرایا۔ وہاں سے جواب دیا گیا کہ آپ کی شکایت موصول ہوئی ہے، اسے متعلقہ شعبے کو بھیج دیا گیا ہے۔ الیاس احمدنے اس کا حل تلاش کرنے اورآئندہ ایسا نہ کیا جائے، اس کیلئے دوبارہ ای میل بھیجا مگر پھرکوئی جواب نہیںدیا گیا اور نہ یہ بتایا گیا کہ اس پرکیا ایکشن لیا جارہا ہے۔ ان مسائل سے ہزاروں والدین پریشان ہیں۔
انہوں نے اپنی تحریری شکایت میں لکھا کہ میں چارکوپ ناکے پر رہتا ہوں اوریہاں سے مالونی اعظمی نگرمیں سینٹ میتھیو اسکول میں میری بیٹی کا سینٹر ہے، تقریباً ۲؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں ٹریفک جام کی وجہ سےمجھے ایک گھنٹہ ۱۸؍منٹ لگ گیا۔ اس کے ساتھ ہی ضابطے کے مطابق امتحان گاہ وقت مقرر ہ سے نصف گھنٹے پہلے پہنچنا پڑتا ہے۔ گویا مجھے کم ازکم ۲؍گھنٹے قبل گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔ جس جگہ میری بیٹی کا سینٹر لگا ہوا ہے وہاں کسی قسم کی سہولت نہیں ہے، والدین کھڑے رہتے ہیں، یہاں تک پہنچنے کےلئے آٹورکشا والا بمشکل تیار ہوتا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے ذہن پرجو منفی اثر پڑتا ہے اس کا اثر امتحان اوراس کے نتائج پربھی دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘
انہوں نے نمائندۂ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ’’بیٹی کا اسکو ل گھر سے چند منٹ کے فاصلے پرہے، اسی طرح دیگربچوں کیلئے ان کے والدین گھر کے قریب اسکول میںداخلہ دلواتے ہیں تاکہ سفر کی صعوبتیں نہ جھیلنی پڑیں مگر جب ۱۰؍ برس تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایس ایس سی میں سینٹر ایسی جگہ لگ جاتا ہے جہاں آنے جانے کی سہولت نہ ہوتو گویا ۱۰؍ برس تک کی جانے والی اس محنت پراثر پڑنا یقینی ہے جہاں بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکیلئے اہم موڑ پر ہوتا ہے۔ اس لئےایئرکنڈیشن کمرو ں میں بیٹھ کرمنصوبہ بندی سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ طلبہ کی مشکلات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اورامتحان گاہ کا انتخاب اس انداز میںکرنا ہوگا جس سےطلبہ کوپریشانی نہ ہو۔ ورنہ اگر سفر میں ہی اس کی انرجی ضائع ہوگئی تو وہ امتحان کا پرچہ کس طرح حل کرے گا اور کس طرح بہتر رزلٹ کی توقع کی جاسکے گی۔ میں نے تواپنی بیٹی کووقت پرپہنچانے کی غرض سے ایک ماہ کی دفتر سے چھٹی لے لی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس کا حل تلاش کرے اوراس بات کو یقینی بنایاجائے کہ طلبہ کو آئندہ سال اس طرح کی مشکلات درپیش نہیں ہوں گی۔ ‘‘