وزیراعظم کے متنازع بیان پر الیکشن کمیشن کا نوٹس ملنے کے بعد بھی جے پی نڈا نےویڈ یو پیغام کے ذریعہ حملہ کیا کہ’’کانگریس درج فہرست ذاتوں، قبائل اور او بی سی کے حقوق چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے‘‘اس پر کانگریس نے نڈا کے الزام کو دروغ گوئی قرار دیا
EPAPER
Updated: April 27, 2024, 9:16 AM IST | Agency | New Delhi
وزیراعظم کے متنازع بیان پر الیکشن کمیشن کا نوٹس ملنے کے بعد بھی جے پی نڈا نےویڈ یو پیغام کے ذریعہ حملہ کیا کہ’’کانگریس درج فہرست ذاتوں، قبائل اور او بی سی کے حقوق چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے‘‘اس پر کانگریس نے نڈا کے الزام کو دروغ گوئی قرار دیا
انتخابی ریلی میں مسلمانوں کے خلاف وزیر اعظم مودی کے انتہائی قابل اعتراض تبصرے پر الیکشن کمیشن کے نوٹس کوٹھینگا دکھاتے ہوئے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے بھی وزیر اعظم مودی کے بیان کو دوہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کانگریس درج فہرست ذات وقبائل اور دیگر پسماندہ ذات کے حقوق چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے صدر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ کانگریس اور اپوزیشن اتحاد کا خفیہ ایجنڈہ ہے۔ نڈا نے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے بیان کوغلط سیاق وسباق میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس یہ کہتی ہے کہ ملک کے وسائل پر سب سے زیادہ حق مسلمانوں کا ہے۔نڈا نے الزام عائد کیا کہ کانگریس کے منشور میں خوشامد پسندی نظر آتی ہے۔ بی جے پی صدر نے الزام لگایا کہ کانگریس ایس سی/ایس ٹی اور او بی سی لوگوں سے نفرت کرتی ہے۔
اس پر کانگریس نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے صدر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر بیان کررہے ہیں۔ پارٹی نے کہا کہ بی جے پی کو اس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ اسے عوام کی حمایت نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے اب اس نے غلط معلومات پھیلانے اور ووٹروں کو پولرائز کرنے کیلئے فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دینے کا کام شروع کردیا۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ جے پی نڈا پوری طرح سے دروغ گوئی کررہے ہیں، حالانکہ اس پر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ۲۰۰۶ءمیں پوری طرح سے صفائی پیش کی تھی۔ انہوںنے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا بیان بھی پوسٹ کیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی مالیاتی ترجیحات کے بارے میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میںان کے بیان کوجان بوجھ کر اور شرارتی انداز میں غلط تشریح کرکے تنازع کھڑا کیا گیا۔ یہاں تک کہ الیکٹرانک میڈیا کے کچھ حصوں میں وزیر اعظم کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دکھایا گیا۔ اس نےبے بنیاد تنازع کو جنم دیا۔
جے رام رمیش نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی تقریر کا متن بھی پیش کیا جس میں مذکور ہے کہ’’مجھے یقین ہے کہ ہماری اجتماعی ترجیحات بہت واضح ہیں۔ زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات، اقلیتوں، خواتین اور بچوں کی ترقی کے پروگرام ہماری ترجیحات ہیں۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے اسکیموں کو نئے سرے سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے نئے منصوبے بنانے ہوں گے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ترقی میں مساوی حصہ داری حاصل ہو۔ وسائل پر پہلا حق ان کا ہونا چاہیے۔ مرکز کے پاس بے شمار دیگر ذمہ داریاں ہیں جن کے مطالبات وسائل کی مجموعی دستیابی کے مطابق ہونے چاہئیں۔‘‘ خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی الیکشن کمیشن نے بادل نخواستہ انتہائی قابل اعتراض تبصرے کیلئے وزیر اعظم مودی کی بجائے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس بھیج کر ۲۹؍اپریل تک جواب طلب کیا تھا،تاہم نڈا نے کمیشن کے نوٹس کوبالائے طاق رکھتے ہوئے وزیر اعظم مودی کے بیان کو دوہرادیا۔ کمیشن نے اپنےنوٹس میں خود اس طرح کے تبصروں کو انتخابی گرما گرمی کا نتیجہ قرار دیا تھا، تاہم مسلسل اس بیان کو دوہرایا جارہاہےجو کہ سوچا سمجھا بیان ہے۔