حکومت کی اس تجویز پرتعلیمی تنظیموںکا اعتراض، کہا : اس سےکئی مسائل پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر اُردو میڈیم اسکولوں کیلئے مسئلہ پیدا ہونے کااندیشہ ہے
EPAPER
Updated: September 08, 2023, 9:19 AM IST | saadat khan | Mumbai
حکومت کی اس تجویز پرتعلیمی تنظیموںکا اعتراض، کہا : اس سےکئی مسائل پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر اُردو میڈیم اسکولوں کیلئے مسئلہ پیدا ہونے کااندیشہ ہے
:اسکولوں کو عمدہ اور معیاری سہولیات سے آراستہ کرنے کے علاوہ ان کے کامیابی اور ترقی کیلئے ریاستی حکومت نے ۶۲؍ ہزار سرکاری اسکولوں کو کارپوریٹ کمپنیوں اور خود مختار سماجی اداروں کی نگرانی میں جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن حکومت کے منصوبہ پر تعلیمی تنظیموں نے اعتراض درج کرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنا مالی بوجھ کم کرنے یا اسکولیں نہیں چلا پانے کی وجہ سے اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس سے متعدد قسم کے مسائل پیدا ہوں گے۔ بالخصوص اُردو میڈیم کے اسکولوں کیلئے کیونکہ کارپوریٹ کمپنیوں اور سماجی اداروں کو اسکول کے نام کے ساتھ اپنی کمپنی کا نام جوڑنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ایسے میں اُردو اسکول کے ناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہونے پر تنازع پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح دیگر مسائل ہیں جن سے اس پروجیکٹ کے کامیاب ہونے کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ تعلیمی سال ۲۳۔۲۰۲۲ء کے کرانتی جیوتی ساوتری بائی پھُلے ریاستی اساتذہ ایوارڈ سے متعلق این سی پی اے میں منعقدہ تقریب کے دوران ریاستی وزیر تعلیم دیپک کیسرکر نے مذکورہ بالا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے مرحلے میں ۱۰؍ سال کیلئے ریاست کے ۶۲؍ ہزار اسکولوں کو کارپوریٹ کمپنیوں اور سماجی تنظیموں کو ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کی ذمہ داری سونپے جانے پر غور کیا جارہا ہے۔
کارپوریٹ کمپنیاں ’سی آرایس فنڈ‘(کارپوریٹ کمپنیوں کا مخصوص فنڈ جو سماجی کاموں کیلئے مختص ہوتا ہے) سے ان اسکولوں میں عمدہ قسم کی سہولیات فراہم کریں گیں۔ جن کی مدد سے اسکولوں کو کامیابی اور ترقی سے ہمکنار کرنے میں مدد ملے گی۔ اس تعلق سے تیار کی گئی تجویز وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو روانہ کی گئی ہے۔ ان کی منظوری کے بعد اس معاملہ میں مزید پیش رفت ہونے کا امکان ہے۔‘‘
حکومت کی تجویز کا کچھ تعلیمی یونینوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے اس پالیسی کو طلبہ کے حق میں بتایا ہے۔ ساتھ ہی حکومت کی ناکامی پر چوٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حق تعلیم ۲۰۰۹ء کے مطابق اسکول ’انفراسٹرکچر‘ کو بنانےکیلئے لوکل باڈیز کی مدد حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس فیصلہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت گزشتہ ۱۳؍ سال میں اسکولوں کو مطلوبہ سہولیات اور انفراسٹرکچر دینے میں ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے کارپوریٹ کمپنیوں اور سماجی اداروں کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔
مہاراشٹر اسٹیٹ شکشک بھارتی کے جنرل سیکریٹری سبھاش مورے کے مطابق ’’مذکورہ فیصلہ طلبہ کے حق میں ہے۔ کیونکہ شہری اور دیہی علاقوں کے بیشتر اسکولوں کا انفراسٹرکچر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔ کسی اسکول کی عمارت بوسیدہ ہے تو کسی اسکول کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ کسی اسکول میں بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے تو کسی اسکول کی دیوار رس رہی ہے۔ اس طرح کے متعدد مسائل ہیں جن سے طلبہ جوجھ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے میں اگر کارپوریٹ کمپنیاں ان اسکولوں کی دیکھ بھال اور یہاں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں تو یہ طلبہ کے حق میں ہے۔ لیکن ساتھ ہی کارپوریٹ کمپنیوں کو اسکول کے انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات کی ذمہ داری سونپنے سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت نے شکست تسلیم کرلی ہے کہ وہ اسکولوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتی ہے۔ آرٹی ای ۲۰۰۹ء میں لوکل باڈیز کی مدد سے اسکول انفراسٹرکچر کی ضروریات پوری کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حکومت اس سہولت سے استفادہ کر رہی ہے لیکن جہاں تک حکومت کی اپنی ذمہ داری کا معاملہ ہے ۱۳؍ سال گزر جانے کے باوجود حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے مذکورہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’کارپوریٹ کمپنیوں کو اسکول کے نام کے ساتھ کمپنی کا نام جوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسکول کے نام کے آگے کمپنی کا نام جوڑا جاسکتا ہے۔‘‘
اکھل بھارتیہ اُردو شکشک سنگھ کے ریاستی جنرل سیکریٹری ساجد نثارنے کہا کہ ’’حکومت نے مذکورہ اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اسکولوں پر خرچ ہونے والا مالی بوجھ نہیں اُٹھا سکتی یا اسکول نہیں چلا سکتی ہے۔ اس لئے اس نے کارپوریٹ کمپنیوں اور سماجی اداروں کو اسکولوں کا خرچ سی آر ایس فنڈ استعمال کرکے پورا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ساتھ ہی انہیں اسکول کے نام کے ساتھ کمپنی یا سماجی سنستھا کے نام کو جوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جس سے بالخصوص اُردو میڈیم کے اسکولوں کو مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اُردو میڈیم کے اسکولوں کے نام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہونے پر تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہم اس تجویز کےحق میں نہیں ہیں۔‘‘