نئے وائس چانسلر نے پی ایچ ڈی داخلوں میں ریزرویشن پالیسی کومکمل تبدیل کردیا، اس سےاقلیتی طلبہ کے مقابلے میں غیر اقلیتی طلبہ کی تعداد میں اضافہ کا امکان۔
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 11:53 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
نئے وائس چانسلر نے پی ایچ ڈی داخلوں میں ریزرویشن پالیسی کومکمل تبدیل کردیا، اس سےاقلیتی طلبہ کے مقابلے میں غیر اقلیتی طلبہ کی تعداد میں اضافہ کا امکان۔
مرکزی حکومت کی سخت مخالفت کےباوجود سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکو تسلیم کرنے کے بعد ایک اور اقلیتی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اب اندرونی خطرات کا شکار ہوگیا ہے۔ نئے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے گزشتہ سال اکتوبر میں اپنی تقرری کے بعد ہی یونیورسٹی کی ریزر ویشن پالیسی کو تبدیل کردیا جس کے بعد یونیورسٹی کے پی ایچ ڈ ی پروگرام میں اقلیتی طلبہ کیلئے ریزرو سیٹوں پراب غیر اقلیتی طلبہ کو داخلہ دیا جا رہا ہے۔ دراصل ۱۲؍نومبر ۲۰۲۴ء میں جامعہ کی مجلس تعلیم اورمجلس منتظمہ کی جانب سے وائس چانسلر کے حوالے سے ایک آرڈیننس نکالا گیا تھا جس میں جامعہ کی ریزرویشن کے تعلق سے موجودہ پالیسی اور اس میں تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہےکہ وائس چانسلر نےجامعہ ایکٹ ۱۹۸۸ء کی دفعہ ۱۱ (۳)کے مطابق اکیڈمک کونسل اور ایگزیکٹیو کونسل کی جانب سے آرڈیننس میں درج ذیل ترمیم کی منظوری دی ہے۔ اس میں بتایا گیا تھاکہ موجودہ پالیسی یہ ہےکہ اگر جامعہ کی ریزرویشن پالیسی کے مطابق موزوں امیدوار دستیاب نہیں ہیں تو سیٹیں پُر نہیں کی جائیں گی لیکن اس میں کچھ ایسی ترمیم کی گئی ہے کہ کئی شعبوں میں غیر اقلیتی طلبہ کے بڑے پیمانے پر داخلے کی را ہ ہموار ہوگئی ہے۔
طلبہ نے نمائندۂ انقلاب کو داخلہ کی جو لسٹ فراہم کی ہے، اس میں واضح طورپر اس تبدیل شدہ پالیسی کے مطابق داخلہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر اے جے کے ماس کمیونی کیشن سینٹر میں چار سیٹ میں سے ایک پر اقلیتی جبکہ تین سیٹوں پر غیر اقلیتی طلبہ کو داخلہ دیاگیا۔ سینٹر فار کلچر اینڈ میڈیا گورننس کی ۷؍سیٹوں میں ایک اقلیتی جبکہ ۶؍ غیر اقلیتی طلبہ کو داخلہ دیا گیا۔اس طرح سے کئی شعبوں میں داخلے کئےگئے ہیں جو جامعہ میں اقلیتی ریزرویشن کی پالیسی کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف بھی ہے۔ جامعہ ملیہ کے کئی طلبہ نے نمائندہ انقلاب سے رابطہ کرکے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتےہوئے اس کو موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ جامعہ کے اقلیتی کردار کو سبوتاژ کرنے اور یونیورسٹی کی ریزرویشن پالیسی کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا۔طلبہ نے یہ بھی کہاکہ اے ایم یو کے علاوہ ملک میں دوسری یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے جہاں اقلیتی طلبہ اعلیٰ تعلیم کیلئے رخ کرتےہیں۔ لیکن موجودہ انتظامیہ اقلیتی طلبہ پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کردینا چاہتی ہے۔ جامعہ کے پی آر او نے ایسی کسی پالیسی سے لا علمی کا اظہار کیا ہے اور اس کی تردید بھی کی ہے۔