Updated: March 22, 2025, 9:30 AM IST
| New Delhi
پہلے خبر آئی کہ جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ پر آگ لگنے کے بعد اسے بجھاتے وقت فائر بریگیڈ کے عملے کو ۱۵؍ کروڑ روپے کیش ملے، چند ہی گھنٹوں میں جج کے تبادلہ کو برآمدگی سے جوڑ دیا گیا مگرشام ہوتے ہوتے فائر بریگیڈ نے رقم کی برآمدگی کی تردید کردی اور سپریم کورٹ نے تبادلہ کو معمول کی کارروائی قرار دیا۔
دہلی فائر سروس کے سربراہ اتل گرگ میڈیا سے گفتگو میں فائر بریگیڈ کے عملہ کو جسٹس ورماکی رہائش گاہ پر نقدی ملنے کی تردید کر رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این
دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ پر آتشزدگی کے بعد آگ بجھانے کی کوشش کے دوران ۱۵؍ کروڑ روپے برآمدہونے کے معاملے نے جمعہ کو شام ہوتے ہوتے اُس وقت نیا رخ اختیار کرلیا جب فائر بریگیڈ عملہ نے ایسی کسی برآمدگی کی تردید کی۔ اُدھر سپریم کورٹ نے بھی باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرکے ’’غلط معلومات‘‘ نہ پھیلانے پر زور دیا اور وضاحت پیش کی کہ جسٹس ورما کے تبادلہ کافیصلہ جمعرات کو ہی ہوچکاتھا۔ اس کا ان کے گھر پر آتشزدگی اور برآمدگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گھر پر آتشزدگی کا معاملہ بھی جمعہ کا نہیں بلکہ ۱۴؍ مارچ کا ہے۔
معاملہ دِن میں کچھ، شام ہوتے ہوتے کچھ
جمعہ کو ابتدائی گھنٹوں میں یہ خبر آئی کہ دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے بنگلے میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد ان کے سرکاری رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہوئی تھی جس کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کالجیم نے ان کا تبادلہ واپس الہ آباد ہائی کورٹ کرنےکی سفارش کی ہے۔ ذرائع کے حوالے سے آنے والی ان خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ کالجیم نے جج کے خلاف اِن ہاؤس انکوائری اور ممکنہ طور پر مواخذے کی کارروائی پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔نیوز چینل ’آج تک‘ نے خبر دی کہ جس وقت جج ورما کے بنگلے میں آگ لگی، وہ شہر میں موجود نہیں تھے۔ ان کے اہل خانہ نے فائر بریگیڈ کو بلایا۔ آگ پر قابو پانے کے بعد فائر ٹیم کو بنگلے میں بڑی مقدار میں نقدی ملی، جس سے انتظامیہ میں ہلچل مچ گئی ہے۔ واقعے کی اطلاع چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کو دی گئی، جس کے بعد سپریم کورٹ کالجیم نے فوری اجلاس بلا کر جسٹس ورما کا تبادلہ الہ آباد ہائی کورٹ کرنے کی سفارش کی۔
برآمدگی کے ویڈیو ثبوت بھی ہونے کا دعویٰ
ابتدائی رپورٹوں میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ نقدی کی برآمدگی کا ویڈیو موجود ہے تاہم اسے عام نہیں کیاگیا۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ جسٹس ورما کے خلاف جانچ کیلئے چیف جسٹس، سپریم کو رٹ ایک جج اور دو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں۔ کمیٹی انکوائری کے بعد رپورٹ پیش کرے گی، جس کی بنیاد پر جج کے خلاف مزید کارروائی ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کالجیم کے چند اراکین نے صرف تبادلہ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر جج ورما نے استعفیٰ نہ دیا تو ان کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی کارروائی شروع کی جانی چاہئے کیوں کہ صرف تبادلہ سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فائر بریگیڈ کی تردید
دوپہر سے شام تک فائر بریگیڈ نے اس معاملے میں خاموشی برتی اور پھر اچانک شام ۶؍ بجے کے آس پاس دہلی فائر بریگیڈ کےسربراہ اتُل گرگ نے اعلان کیا کہ فائرمین کو آگ بجھانے کے دوران جسٹس ورما کے بنگلے سے کوئی کیش نہیں ملا۔ انہوں نے بتایاکہ ۱۴؍ مارچ کو لُٹین دہلی میں واقع جسٹس ورما کے بنگلے میں آگ لگنے کی اطلاع ۱۱؍ بجکر ۳۵؍ منٹ پر موصول ہوئی ہےا ور اسی وقت عملہ روانہ ہوگیا جو ۱۱؍ بجکر ۴۳؍ منٹ پر وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۵؍ منٹ میں ہی آگ پر قابو پالیاگیا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دہلی فائر سروس کے سربراہ اتل گرگ کے مطابق ’’آگ پر قابو پانے کے بعد ہم نے اس کی اطلاع پولیس کو دی اور فائرعملہ وہاں سے روانہ ہوگیا۔ آگ پر قابو پانے کے دوران ہمارے جوانوں کو کئی نقدی نہیں ملی ہے۔‘‘
تبادلہ پر سپریم کورٹ کی صفائی
جمعہ کی شام ۶؍ بجے کے آس پاس ہی سپریم کورٹ نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کی اور بتایا کہ جسٹس ورما کا دہلی سے الہ آباد ہائی کورٹ تبادلہ کا ان کے گھر پر نقدی کی مبینہ برآمدگی کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بتایاکہ نقدی کی برآمدگی سے متعلق اطلاع ملنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اُپادھیائے نے خانگی جانچ شروع کردی ہے اور اس ضمن میں شواہد اکٹھا کئے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق جسٹس ورما کے تبادلے کا فیصلہ ۲۰؍ مارچ کو کیاگیا جبکہ تبادلے کافیصلہ ۲۰؍ مارچ کو کالیجیم کی میٹنگ میں کیاگیا جس کا مذکورہ انکوائری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپنی رپورٹ دو ایک روز میں پیش کردیں گے۔