• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

رواں سال کےدوران اسپتالوں میں کوروناوائرس ہی موضوع ِ بحث رہا

Updated: December 27, 2020, 11:46 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

سال۲۰۲۰ءکو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس سال کا دنیاکے وجود سے بڑا گہرا تعلق بن گیاہے۔ کورونا وائرس نامی وباء سے پوری دنیابری طرح متاثر اور دہل گئی ہے۔ اس وباء کا زندگی کے ہر شعبہ پر منفی اثرمرتب ہوا ہے۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

سال۲۰۲۰ءکو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس سال کا دنیاکے وجود سے بڑا گہرا تعلق بن گیاہے۔ کورونا وائرس نامی وباء سے پوری دنیابری طرح متاثر اور دہل گئی ہے۔ اس وباء کا زندگی کے ہر شعبہ پر منفی اثرمرتب ہوا ہے۔  ۲۰۲۰ءمیںبالخصوص شعبۂ طب میں کافی ہلچل رہی۔اس بیماری کی وجہ سے اسپتالوںمیں پورے سال کوروناوائرس ہی موضوع ِ بحث رہا۔ اس  سال مرض سے اسپتالوں میں ہونےوالی دقتوں، مسائل، مصائب اور اس پرقابوپانےکی جدوجہد کےتعلق سےچند اہم باتیں پیش کی جارہی ہیں۔ ممبئی میں کوروناوائرس کی آمد مارچ میں ہوئی لیکن اس سے نمٹنے کی تیاری میں ریاستی محکمۂ  صحت ، بی ایم سی اور سرکاری اسپتالوں کےماہر اور سینئر ڈاکٹروںکی ٹیم جنوری اورفروری سےسرجوڑکر بیٹھ گئےتھے۔ ۲۳؍ مارچ سے ممبئی میں لاک ڈائون نافذکیاگیااور اس کےساتھ ہی کوروناوائرس کے مریضوںکی تشخیص کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کورونا وائر س کےمریضوںکیلئے ممبئی میں بی ایم سی کے کستورباراسپتال کوتمام احتیاطی تدابیر کےساتھ ماہر ڈاکٹروںاور معاونین کی مدد سے تیار کیاگیاتھا۔ کستوربااسپتال میں کوروناوائرس کےمریضوںکی تعداد میں متواتر اضافہ ہونے کی صورت میں دیگر اسپتالوںمثلاً نائر،کے ای ایم اورسائن میں بھی کووڈکے علاج کی سہولیات مہیاکرائی گئیں ۔ اس کی وجہ سےان اسپتالوںمیں زیر علاج دیگر امراض کےمریضوںکو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیاتاکہ ان اسپتالوںمیں کوووڈ کے زیادہ سے زیادہ مریضوںکا علاج ہوسکے۔ ایمرجنسی کے علادہ دیگر مریضوںکےآپریشن ملتوی کردیئے گئے۔ اپریل میںکستوربا اسپتال کوروناوائرس کے مریضوںسے بھرگیا۔ نئے مریضوںکیلئے نائر اسپتال کوپوری طرح کووڈ اسپتال میں تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح کے ای ایم اورسائن اسپتال میں بھی مخصوص کووڈ وارڈ بنائے گئے ۔ 
 ڈیلیوری اور ڈائیلاسس کےمریضوں کو دقت
 بی ایم سی اسپتالوںکو کووڈاسپتال میں منتقل کرنےسے ان اسپتالوں میںزیر علاج بالخصوص ڈیلیوری اور ڈائیلاسس کےمریضوںکو بڑی پریشانی ہوئی۔ اسی دوران مریضوںکیلئے کووڈ ٹیسٹ لازمی کردیئےگئے۔ کورونا وائرس کے خوف سے پرائیویٹ اسپتالوںمیں بھی ڈیلیوری اور ڈائیلاسس کے مریضوںکو داخل نہیں کیا جارہا تھا۔ وقت پر ڈائیلاسس نہ ہونےسے اس مرض میںمبتلا سیکڑوں مریضوںکو شدید تکلیف اُٹھانی پڑی۔ اس وقت کووڈ کا ٹیسٹ ساڑھے ۵؍ ہزار روپےمیںہورہاتھا۔ غریب مریضوں کیلئے کورونا کا ٹیسٹ کرانا ایک مسئلہ بن گیاتھا۔ لیکن علاج کیلئے انہیں کسی بھی طرح کووڈ ٹیسٹ کرانا ہی تھا۔ جو مریض ٹیسٹ کرارہےتھے ان میں سے ۵۰؍ فیصد مریضوں کاکووڈ ٹیسٹ پازیٹو آرہاتھا جس سے ڈائیلاسس کے مریض خوفزدہ ہوگئےتھے۔ ڈائیلاسس کے مریضوںکیلئے یہ بھی ایک بڑی دشواری تھی کہ ہر ڈائیلاسس سےپہلے انہیں کووڈ ٹیسٹ کرانا تھا۔ متعدد سرکاری اسپتالوں نے ڈائیلاسس کرنابندکردیاتھا۔ ڈائیلاسس کےمریض مجبوراً پرائیویٹ اسپتالوںکارخ کررہے تھے مگر کورونا وائرس کے خوف سے یہ بھی ڈائیلاسس کرنے سےمنع کررہے تھے جس کی وجہ سےاس دوران ڈائیلاسس کےمریضوںکی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔اسی طرح حاملہ خواتین کوبھی سرکاری اورپرائیویٹ اسپتالوں میں داخل نہ کئے جانے سے کچھ خواتین کی ڈیلیوری گھروںپر ہی ہوئی  ۔
مریضوں اوراموات میں اضافہ اور اسپتالوںکی بدنظمی 
 مئی ، جون اور جولائی میں کووڈکیلئے مختص سرکاری  اسپتالوںمیں مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات سے اسپتال انتظامیہ پریشان ہوگئے تھے۔ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے سے ایک ہی بیڈ پر کورونا وائرس کےزندہ اور مردہ مریضوں کو ایک ساتھ دیکھاگیا۔کووڈکے خوف اورکام کی ذیادتی سےپریشان ہوکر چوتھے درجے کاعملہ ڈیوٹی پر نہیں آرہاتھا جس سے کووڈ کی لاشیں ۲۔۳؍دنوں تک وارڈ میں ہی پڑی دیکھی گئیں ۔ اس طرح کے واقعات بھی سامنے آئے تھے۔
کوارینٹائن سینٹروںکا قیام
  کوروناوائرس کےپازیٹیو مریضوں سے اسپتالوں کے بھر جانے کی صورت میں کورونا کے مشتبہ مریضوںکی تشخیص اورعلاج کیلئے ممبئی اور مضافات کے کئی علاقوںمیں عارضی اسپتال قائم کئے گئے  جن میں مہالکشمی ریس کورس، رچرڈسن کروڈاس اور بی کے سی وغیرہ شامل ہیں۔ان اسپتالوںمیں کووڈ کےمشتبہ مریضوں کےعلاج  کے ساتھ جن مریضوںکو کوارینٹائن کرنے کی ضرورت تھی انہیں اسکولوں، ہوٹلوں اور دیگر سرکاری عمارتوںمیں ۱۴؍دنوںکیلئے رکھا گیا۔
ایمبولنس والوں کی دھاندلی 
 پرائیویٹ ایمبولنس والوںنے بھی موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ حالانکہ بی ایم سی کی جانب سے ۱۰۸؍ ایمبولنس سروس کی سہولت فراہم کی گئی تھی مگر اس کی سروس انتہائی ناقص اورمایوس کن تھی۔پرائیویٹ ایمبولنس والے پہلے تو جانے سےہی منع کررہےتھےاور اگر جابھی رہےتھے تو ۵؍تا ۱۰؍کلومیٹر کےفاصلے کیلئے ۱۰؍تا ۱۵؍ہزار روپے تک کامطالبہ کررہے تھے۔
گھروں میں اموات کے سرٹیفکیٹ کیلئے ہزاروں روپے کامطالبہ 
 اس وباء کےدوران گھرمیں ہونےوالی اموات کیلئے پرائیویٹ کلینک کے ڈاکٹر سرٹیفکیٹ بنانےمیں ٹال مٹول کررہےتھے۔ اس سرٹیفکیٹ کیلئے ۵؍تا ۱۰؍ہزار روپے کا مطالبہ کیاجارہاتھا۔
پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ 
  مارچ تا جولائی پرائیویٹ اسپتالوںمیں کوروناوائرس کےعلاج کے نام پرمریضوں سے لاکھوں روپے لوٹےگئے۔ان اسپتالوںمیں علاج کا بل ۵۰؍تا ۶۰؍لاکھ روپے بنایاگیا۔ان میں بیڈ کا چارج ایک لاکھ روپے یومیہ تک تھا۔ 
کلینک بندہونے سے عام مریض پریشان 
 کوروناوائرس کے خوف سے بیشتر ڈاکٹروں نےاپنے کلینک بندکردئیے تھے۔ اس سےعام امراض مثلاً بخار، کھانسی، بدن درداور سردی وغیرہ کے مریضوں کو بڑی دقت ہوئی ۔ کچھ ڈاکٹروںنے ہمت کرکےدواخانہ کھولا بھی تھا تو ان کے دواخانے پر اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ ایک مریض کو دوا لینے کیلئے ۳۔۴؍ گھنٹے قطار میں لگناپڑتا تھا۔
 انجکشن دے کرمارنےکاالزام
  اسی دوران کچھ مریضوںاور ان کےمتعلقین نے اسپتالوں پر یہ الزام بھی لگایاکہ اسپتالوںمیں کوروناوائرس کے علاج کےنام پر ایک مخصوص قسم کا انجکشن دےکر مریضوں کو مارنےکی سازش کی جارہی ہے جس سے کورونا وائرس کے مریضوں میں تشویش پائی گئی ۔
ستمبرسے آنے والی کمی سے عوام میں راحت
  اپریل تا ستمبر ممبئی اور مضافات میں کورونا وائرس کے مریضوں کا زور رہا۔ بعد ازیں مریضوں کی تعداد میں آنےوالی کمی سے عوام نے راحت محسوس کی۔ لیکن حال ہی میں برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی لہر سے ایک مرتبہ پھر شہریوںمیں بے اطمینانی پائی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK