مجلس مشاورین کے صدر شرف الدین نےکہا کہ’’ یہ مقدمہ حکومت مہاراشٹرکے دعوے کیخلاف تھا جس نے مسجد اور عید گاہ کی زمین کو اپنی ملکیت ظاہر کیا تھا،عدالت نے اس تعلق سے شواہد پر کوئی فیصلہ ہی نہیں دیا اور نہ ہی مندر یا مسجد کے تعلق سے کوئی بات اپنے آرڈر میں کہی ہے‘‘
کلیان سول کورٹ نے۱۰؍دسمبرکو تقریباً ۴۸؍ سال بعد مجلس مشاورین کے کلیان کے مشہور قلعہ پر واقع مسجد، قبرستان اور عیدگاہ پر ملکیت کے دعوے کو خارج کردیا۔ علاوہ ازیں اس فیصلہ پر عارضی طور پر روک لگانے کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔
واضح رہے کہ کلیان سول کورٹ کے جج اے ایس لانجے وار نے منگل کے روز سنائے گئے اپنے فیصلہ میں دُرگاڑی قلعہ پر واقع تاریخی مسجد کو مندر قرار نہیں دیا تھا۔ اس کے باوجودچند شرپسند عناصر نے کورٹ کے فیصلہ کی غلط تشریح کی اور شہربھر میں افواہ پھیلائی کہ عدالت نے درگا دیوی مندر کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ درحقیقت کورٹ نے یہ کہتے ہوئے مجلس مشاورین کے ملکیت دعوے کو خارج کردیا کہ انہوں نے مقررہ مدت میں دعویٰ داخل نہیں کیا تھا۔
درگاہ اور مسجد کی ملکیت کے دعوے کے متعلق سنائے گئے مذکورہ فیصلے کے قانونی نکات کی تفہیم کی غرض سے نمائندہ انقلاب نے ایڈوکیٹ عزیر نجے سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ’’ اس معاملے میں صحیح اور درست موقف بتانے کا اختیار صرف مجلس مشاورین کو ہی ہے البتہ صرف مقدمہ کی حد تک یہ بات عیاں ہے کہ اس مقدمہ کا فیصلہ اثبات اور شواہد پر اب تک نہیں ہوا ہے۔ معینہ مدت کی تکنیکی شرط پر مجلس مشاورین کے دعوے کو خارج کیا گیا ہے۔ ‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ’’ مالکانہ حق اور اس بناء پر قبضہ کا مقدمہ ہو تب اسکی معینہ مدت ۱۲؍سال ہوتی ہے۔ مگر صرف قبضہ یا قبضہ مخالفانہ کی بناء پر مقدمہ ۳؍ سال کی میعاد کے اندر داخل کرنا ہوتا ہے۔ ‘‘ ایڈوکیٹ عزیر نجے کے مطابق مجلس مشاورین کی ٹیم شہر و مضافات کے معروف اور سینئر وکلاء پر مشتمل ہے لہٰذا اس پر اپیل میں ضرور راحت ملے گی، ایسی قومی امید ہے۔
مجلس مشاورین کے صدر شرف الدین نے اس معاملے پر گفتگو کے دوران نمائندہ انقلاب سے کہا کہ’’ یہ پورا مقدمہ حکومت مہاراشٹر کے دعوے کے خلاف تھا جس نے مسجد اور عید گاہ کی زمین کو اپنی ملکیت ظاہر کیا تھا، اس کے خلاف حق ملکیت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس تعلق سے چونکہ شواہد پر کوئی فیصلہ ہی نہیں دیا ہے اور نہ ہی مندر یا مسجد کے تعلق سے کوئی بات اپنے آرڈر میں کہی ہے۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعہ شر انگیزی کی جارہی ہے اور اس تعلق سے غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں تاکہ شہر کی پر امن فضا کو خراب کیا جائے۔ ‘‘