• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کووی شیلڈ کے بعد کوویکسین کے بھی مضر اثرات، بنارس ہندو یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ

Updated: May 17, 2024, 8:02 AM IST | New Delhi

نظام تنفس کا انفیکشن ، الرجی بڑھنے کی شکایتیں اور خون جمنے کی علامات سامنے آئیں

Bharat Biotech`s Covaxin
بھارت بائیو ٹیک کی کوویکسین

کورونا کے دور میں ملک کے بیشتر عوام کو دَم دلاسہ دے کر  لگائے گئے کورونا کے ٹیکوں کا کڑوا سچ اب سامنے آرہا ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کے کووی شیلڈ کے بعداب بھارت بائیو ٹیک کےٹیکے کوویکسین کے تعلق سے بھی یہ رپورٹ آرہی ہے کہ اس ٹیکے کے بھی مضر اثرات ہو رہے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوویکسین کی وجہ سے بھی وہی مضر اثرات ہوسکتے ہیں جو کووی شیلڈ کے ہیں۔یعنی کوویکسین لینے والوں کو بھی خون کے  جمنے کی شکایت، بلڈ کلوٹنگ اور جلدی امراض کی شکایت ہو سکتی ہے۔ریسرچ میں یہ سنسنی خیز خلاصہ بھی ہوا ہے کہ کوویکسین کی وجہ سے معمر افراد سے زیادہ خطرہ نوجوانوں کو ہے اور خاص طورپر۱۵؍ سال سے ۳۰؍ سال کی لڑکیوں کو ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی لڑکیاں جو کسی نہ کسی قسم کی الرجی کا شکار ہیں اور انہوں نےکورونا کے دور میں کوویکسین لی ہے تو انہیں زیادہ خطرہ ہے۔
  اس ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کوویکسین کے ٹیکے کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں سانس کے انفیکشن کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔ حالانکہ ایسٹرازینکا کی بنائی گئی کووی شیلڈ کا تنازع سامنے آنے کے بعدبھارت بائیو ٹیک نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ٹیکہ بالکل محفوظ ہے اور اس کا کوئی بھی سائڈ ایفیکٹ نہیں ہے۔یا د رہے کہ بھارت بائیو ٹیک کا کو ویکسین ٹیکہ وزیر اعظم مودی بھی دو مرتبہ لے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ بنارس ہندویونیورسٹی نے ایک ہزار سے زائد لوگوں پر اپنے تجربات کئے اور ٹیکوں کے بعد ان کی بیماریوں اور اس کے خطرات  کے بڑھ جانے کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ریسرچ مکمل کی ہے۔ اس میں پایا گیا کہ۳۰۴؍ نوجوانوں اور۱۲۴؍ معمر افراد نے ٹیکہ لینے کے بعد گزشتہ ۳؍ سال میں کئی مرتبہ سانس کا انفیکشن ہونے کی شکایت کی ہے۔ اس سے لوگوں میں سردی اور کھانسی کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔یاد رہے کہ ہندوستان میں کوویکسین کے ۳۶؍ کروڑ سے زائد ڈوز لگائے گئے تھے جبکہ کووی شیلڈ کے ۱۷۵؍ کروڑ ڈوز لگائے گئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK