• Tue, 25 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ حکومت پر تنقید آزادی ٔ اظہار رائے کا حصہ ہے‘‘

Updated: February 20, 2025, 10:25 AM IST | Lucknow

الہ آباد ہائی کورٹ کا اہم تبصرہ، یوپی سرکار کے وکیل کے دلائل کو مسترد کردیا، یتی نرسمہانند کی تقریر پوسٹ کرنے کے معاملے میں محمد زبیر کی گرفتاری پرروک میں  بھی توسیع

Muhammad Zubair, co-founder of Alt News
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر

الہ آباد ہائی کورٹ نے   ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف یو پی  کے سرکاری وکیل کے دلائل کو خارج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ حکومت پر کسی بھی پہلو سے تنقید کی جاسکتی ہے اوریہ آزدی اظہار رائے کا حصہ ہے جس کی ضمانت آئین ہند نے دی ہے۔اس کے ساتھ ہی کورٹ  نے  یتی نرسمہانند کی زہر افشانی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے انتظامیہ اورعوام کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی پاداش میں  ایف آئی آرکا سامنا کرنے والے محمد زبیر کی گرفتاری پر  روک میں ایک بار پھر توسیع کردی ہے۔ 
 یاد رہے کہ محمد زبیر نے مسلمانوں  کے خلاف یتی نرسمہانند کی زہر افشانی کاویڈیو ایکس پر پوسٹ  کرکے اس جانب توجہ مبذول کرائی تھی مگر یوپی  پولیس کی غازی آباد اکائی نے محمد زبیر کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کرلی تھی ۔ ان پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیاہے۔ محمد زبیر نےا س ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر   ۱۷؍فروری سے  یومیہ سماعت ہورہی ہے۔  ایف آئی آر میں بعد میں بی این ایس کی دفعہ ۱۵۲-بی کا بھی  اضافہ کر دیا  گیا جوملک کی سالمیت اور اس کی خود مختاری کیلئے خطرہ پیدا کرنے سے متعلق ہے۔ 
 بدھ کو اس پر سماعت  کے دوران اتر پردیش کے وکیل ا یڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل   منیش گوئل  نے محمد زبیرکو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت  پر تنقید اور حکومت کے فیصلوں  پر تنقید  میں  فرق کیا جانا چاہئے۔  انہوں  نے  الزام لگایا کہ زبیر نے جس طرح کا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کی  اس سے حکومت ، عدلیہ اورآئین پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوسکتاہےنیز غلط فہمی   اور عوام میں اشتعال پھیل سکتاہے۔ 
  اس پر جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس یوگیندر کمار شریواستو کی  دورکنی بنچ   کہا  کہ حکومت پر کسی بھی پہلو سے تنقید کی جا سکتی ہے۔ یہ آزادیٔ اظہار کا حصہ ہے۔ کورٹ نے مزید کہا کہ  یہاں تک کہ  بطور ادار ہ عدلیہ پر بھی تنقید  ہوسکتی ہے۔
   بنچ نے اس بات کا حوالہ بھی دیا کہ  چونکہ (ملک  کے خلاف بغاوت سے متعلق) تعزیرات ہند کی  دفعہ ۱۲۴-اے  اختلاف رائے کو دبا رہی تھی، اس لئے پارلیمنٹ نے اپنی سمجھداری سے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) میں اسے شامل نہیں کیا بلکہ اس کی جگہ  دفعہ ۱۵۲-بی (ہندوستان کی خود مختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے والاعمل)کو شامل کیا۔ 
 اس سے قبل محمد زبیر کی طرف سے دلائل پیش کرتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ دلیپ کمار نے کہا کہ زبیر نے فیکٹ چیکر کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے مذکورہ  پوسٹ کیاتھا۔ انہوں  نے کہا کہ ان کے وکیل نے یتی نرسمہانند کی متنازع تقریر اور ان کے طرز عمل کی جانب توجہ مبذول کراکر اپنی  آزادی  ٔ اظہار رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ایسا(یتی نرسمہانند کی مذکورہ تقریر کو شیئر کرکے) صرف زبیر نے نہیں کیا ہے بلکہ کئی خبروں اور سوشل میڈیا پوسٹ میں  اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ   اس طرح کے پوسٹ انڈین پینل کوڈ یا بھارتیہ نیائے سنہتا کے تحت جرم نہیں ہیں۔  زبیر کے وکیل نے  کورٹ کو متوجہ کیا کہ  یتی نرسنگھانند کے خلاف ۲۴؍ مجرمانہ معاملات  درج ہیں پھر بھی   یوپی  پولیس افسران نے ان پر مقدمہ نہیں چلایا۔ انہوں نے بتایا کہ نرسمہانند پر کسی بھی جرم کیلئے  کمزور دفعات کے تحت  ایف آئی آر درج کی جاتی  ہیں۔  انہوں  نے سخت  دفعات کے تحت کارروائی کی مانگ کی۔
 محمد زبیر کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے اترپردیش حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ میں دعویٰ کیا کہ ریاستی پولیس نے نرسنگھا نند کے خلاف کارروائی کی تھی، عدالتوں نے ہی انہیں ضمانت دی ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل منیش گوئل نے کہا کہ دراصل محمد زبیر نے  ’ایکس‘ پوسٹ کے ذریعہ نریٹیو (بیانیہ) بنایا اور لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ کے وقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔بہرحال عدالت عالیہ نے محمد زبیر کو گرفتاری سے راحت دیتے ہوئے اسٹے آرڈر میں ایک دن کی توسیع کردی۔ ہائی کورٹ میں ۱۷؍فروری سے روزانہ سماعت ہورہی ہے۔
 قابل ذکر ہے کہ محمدزبیر نے۳؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا جس میں ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنگھانند کونبی کریم ؐ کے تعلق سے   اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ انہوں نے یوپی پولیس کو بھی ٹیگ کیا  تھا اور پوچھا تھاکہ اس معاملہ میں کیا کارروائی کی گئی ہے۔اسی پوسٹ  پر محمدزبیر کے خلاف یتی نرسنگھانند سرسوتی فاؤنڈیشن کی جنرل سکریٹری ادیتا تیاگی کی طرف سے ایف آئی آردرج کرائی گئی تھی۔ اس ایف آئی آر کے خلاف محمد زبیر نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا  ہےجہاں سے انہیں گرفتاری سے عبوری راحت مل گئی تھی۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ محمد زبیرکوئی پیشہ وریا خطرناک مجرم نہیں ہیں،اس لئے انہیں راحت فراہم کی جا سکتی ہے۔

lucknow Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK