پی چدمبرم نے اسے۹۹؍ فیصدکاپی پیسٹ بتایا، شرد پوار نے کہا: قوانین کی تبدیلی میں بحث اور تجاویز کی کمی کا واضح طور پر اظہار ہوتا ہے، عمر عبداللہ نے نئے سرے سےغور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
EPAPER
Updated: July 02, 2024, 10:40 AM IST | Agency | New Delhi
پی چدمبرم نے اسے۹۹؍ فیصدکاپی پیسٹ بتایا، شرد پوار نے کہا: قوانین کی تبدیلی میں بحث اور تجاویز کی کمی کا واضح طور پر اظہار ہوتا ہے، عمر عبداللہ نے نئے سرے سےغور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
یکم جولائی سے ملک بھر میں نئے تعزیری اور فوجداری قوانین کا نفاذ ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے خلاف ملک گیر احتجاج بھی شروع ہوگیا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نےاس پر شدید تنقید کی ہے اور اس میں موجود نقائص کو اجاگر کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم نے جہاں ان قوانین کو کاپی پیسٹ بتایا، وہیں سابق وزیر دفاع شرد پوار نے قوانین کی تبدیلی میں بحث اور تجاویز کی کمی کی طرف اشارہ کیا۔ جموں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے جہاں نئے قوانین کے تئیں نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا، وہیں سماجوادی کی رکن پارلیمان ڈمپل یادو نےان قوانین کو عوام پر شکنجہ کسنے کا ایک ہتھیار قرار دیا۔
کانگریس کے سینئر لیڈرپی چدمبرم نے نئے تعزیری اور فوجداری قانون پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین میں دیگر قوانین سے۹۹؍ فیصد کاپی پیسٹ ہے۔اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان میں کچھ تبدیلیاں غیر آئینی ہیں۔ سابق وزیرداخلہ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لینے والے تین فوجداری قوانین یکم جولائی سے نافذ ہو گئے ہیں جن میں زیادہ تر کاپی اور پیسٹ ہیں، حالانکہ انہیں کچھ ترامیم کے ساتھ پورا کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اراکین پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر بنائے گئے یہ قوانین ایک بیکار عمل ہوکر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے قوانین میں کچھ تبدیلیاں اچھی بھی ہیںجن کاہم نے ان کا استقبال بھی کیا ہے۔ انہیں ترامیم کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا۔ انہوںنے مزید لکھا ہے کہ ان قوانین میں کئی خراب دفعات ہیں اور کچھ تبدیلیاں غیر آئینی بھی ہیں۔ پی چدمبرم کے مطابق اُس وقت جو اراکین پارلیمان اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن تھے، انہوں ان دفعات پر غور کیا اور تینوں بلوں پر تفصیلی اختلافی نوٹس بھی لکھے لیکن افسوس کہ حکومت نے اختلافی خطوط میں تنقیدوں پر کوئی تردید یا جواب نہیں دیا اور پارلیمنٹ میں کوئی معنی خیز بحث نہیں کی۔ قانونی اسکالروں، بار اسوسی ایشنوں، ججوں اور وکیلوں نے متعدد مضامین اور سیمیناروں میں نئے قوانین میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن حکومت نے کسی کے بھی سوالوں کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ بغیر کسی بحث و مباحثے کے نئے قوانین لانا فوجداری نظام انصاف کو تباہ کر دینے والا ہوگا۔
این سی پی (ایس پی ) کے سربراہ اور سابق وزیر دفاع شردپوار نے بھی ان قوانین پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ملک کے فوجداری قوانین میں تبدیلی بحث و تجاویز کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ موجودہ طرز حکمرانی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن حکمرانوں پر یک نکاتی پروگرام کے نفاذ کی دھن سوار ہو، ان سے بحث کی امید کرنا غلط ہوگا۔ یہ باتیں انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہی ہیں۔ انہوںنے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے۱۵۰؍ اراکین پارلیمان کو معطل کر کے ملک کے فوجداری قوانین میں تبدیلی لائی گئی تھی۔ یہ تبدیلی بحث اور تجاویز کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے قومی سلامتی کے نظام پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ وقت کے ساتھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، شفافیت لانے کیلئے بحث کے ذریعے مزید ٹھوس اقدامات کئے جا سکتے تھے مگر اس حکومت سے اس طرح کی توقعات ہی فضول ہے۔
نئے فوجداری قوانین پر دوبارہ غور وفکر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ڈر اس بات کا ہے کہ سب سے پہلے ان قوانین کا استعمال جموں کشمیر کے لوگوں پر ہوتا ہے ۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے پہلے ہی ان قوانین سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے، ویسے تو کہا جاتا ہے کہ کوئی قانون اپنے آپ میں خراب نہیں ہوتا لیکن جس طرح سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے اُس میں خرابی ہوتی ہے۔‘‘
کانگریس کی جنرل سیکریٹری اور رکن پارلیمان کماری شیلجانے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتی حکام اور قانونی ماہرین کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ یہ قوانین کسی نہ کسی وقت شہریوں کی بڑی تعداد کو متاثر کریں گے۔ حکومت نے جس طرح سے ان قوانین کو پارلیمنٹ میں لانے میں جلدی کی ہے اور جس طرح ان پر عمل درآمد کیا ہے، وہ جمہوریت میں کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے ۔
دریں اثنا سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمان ڈمپل یادو نے بھی ان قوانین کے تئیں اپنے خدشات کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اگربیرون ممالک میں لوگ اپنے حقوق کیلئے احتجاج کریں گے تو یہ قوانین ان پر نافذ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ان قوانین کو پورے ملک پر شکنجہ کسنے کی تیاری کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ ایم آئی ایم کے سربراہ اور حیدرآبا د لوک سبھا کے رکن اسدالدین اویسی نے ان قوانین کو یواے پی اے سے بھی خطرناک بتایا۔ میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان قوانین کاسہارا لے کر مرکزی حکومت کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔ اسی طرح ’آپ‘ کے رکن پارلیمان راگھو چڈھا، شیو سینا (یو بی ٹی) کی ایم پی پرینکا چترویدی، شرومنی اکالی دل کی رکن پارلیمان ہرسمرت کور اور کانگریس کے ایم پی کشوری لال شرما نے بھی اس پراعتراض کیا۔
مذکورہ تینوں قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پیر کو کولکاتا میں وکیلوں نے سیاہ فیتہ باندھا۔ انہوں نے اسے سیاہ قانون قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت سے فوری طور پر واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں وکلاء نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔