یوپی ضمنی الیکشن میں کانگریس نے انڈیا اتحاد کو مزید مضبوط کرنے، بی جے پی کو سخت ٹکر دینے اور اکھلیش یادو کا’ قرض‘ چکانے کیلئے ایسا فیصلہ کیا ہے
EPAPER
Updated: October 26, 2024, 11:57 PM IST | New Delhi
یوپی ضمنی الیکشن میں کانگریس نے انڈیا اتحاد کو مزید مضبوط کرنے، بی جے پی کو سخت ٹکر دینے اور اکھلیش یادو کا’ قرض‘ چکانے کیلئے ایسا فیصلہ کیا ہے
اتر پردیش کی ۹؍ اسمبلی سیٹوں کے لئے ۱۳؍ نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ ان ۹؍ سیٹوں کے لئے برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن میں موجود سماج وادی پارٹی مقابلہ کررہی ہیں۔ اسے ۲۰۲۷ء کے یوپی اسمبلی الیکشن سے قبل سیمی فائنل اور ایک طرح کا ریفرنڈم بھی قرار دیا جارہا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے امیدواروں کا اعلان ہو گیا ہے جبکہ انڈیا اتحاد کی پارٹیوں کانگریس اور سماج وادی میں ابتدائی کشمکش کی خبروں کے بعد گزشتہ دنوںکانگریس پارٹی نے حیرت انگیز طور پر یہ اعلان کردیا کہ وہ کسی بھی سیٹ پر امیدوار نہیں اتارے گی بلکہ پوری طاقت کے ساتھ سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ اس اعلان نے نہ صرف سماج وادی پارٹی کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ بی جے پی کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے کیوں کہ اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ کانگریس ایسا بھی کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ حالانکہ وہ اس پر تنقیدوں سے باز بھی نہیں آرہی ہےلیکن اس فیصلے کیلئے بی جے پی کو مشکل میں ضرور ڈال دیا تھا ۔ چونکہ سماج وادی پارٹی نے ۹؍ میں سے ۲؍ سیٹیں کانگریس کو دینے کا اعلان کیا تھالیکن کانگریس نے اپنے فیصلے بی جے پی سمیت سیاسی پنڈتوں کو بھی چونکا دیا۔ بی جے پی نواز میڈیا نے تو اسے میدان چھوڑکر بھاگنے کی کوشش قرار دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس نے نہایت سوجھ بوجھ اور پوری فہم و فراست کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ذریعے کانگریس نے ایک تیر سے کئی شکار کرلئے ہیں۔
الیکشن نہ لڑنے کی اہم وجوہات
کانگریس پارٹی نے یہ فیصلہ ہائی کمان کی سطح پر کیا ہے تاکہ یوپی الیکشن میں سیکولر ووٹ بالکل بھی تقسیم نہ ہوں اور وہ تمام ووٹ سماج وادی پارٹی کو ملیں۔ جن ۲؍ سیٹوں پر کانگریس نے میدان میں نہ اترنے کا فیصلہ کیا ہے وہاں بتایا جارہا ہے کہ پارٹی پہلے ہی کمزور تھی اور اگر وہ یہاں میدان میں اترتی تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ انڈیا اتحاد کو اور سماج وادی پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا تھا ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ اس وقت کانگریس پارٹی اپنا پورا دھیان مہاراشٹر اور وائناڈ کی پارلیمانی سیٹ پر لگانا چاہتی ہے۔ مہاراشٹر میں فتح سے پارٹی کو بہت فائدہ ہو گا جبکہ وائناڈ میں پرینکا گاندھی کی جیت کا فرق پارٹی دگنا سے بھی زیادہ کرنا چاہتی ہے۔ اس سے پورے ملک میں کانگریس کے تئیں مثبت پیغام جائے گا۔اس کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ ہے ۔ راہل گاندھی کی درخواست پر اکھلیش یادو نے ہریانہ میں نہ سیٹیں مانگی تھیں اور نہ اپنا کوئی امیدوار اتارا تھا تاکہ انڈیا اتحاد کا مقابلہ یکطرفہ طور پر بی جے پی سے ہو۔ اکھلیش یادو کے اسی قرض کو چکانے کے لئے راہل گاندھی نے خود فیصلہ کیا کہ پارٹی یوپی کا ضمنی الیکشن نہیں لڑے گی بلکہ ایک متحدہ فرنٹ بی جے پی سے مقابلہ کرے گا۔ اس سے انڈیا اتحاد بھی مضبوط ہو گا اور پارٹی کوغیر ضروری طور پر الیکشن میں اترنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔اس کے ساتھ ہی پارٹی نے یوپی میں بہت پھونک پھونک کرقد م رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اکھلیش یادو نے کانگریس کا مطالبہ تسلیم کیا
کانگریس کے الیکشن نہ لڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غازی آباد صدر اور کیہر کی سیٹ پارٹی کی روایتی سیٹ کبھی نہیں رہی ۔ کانگریس پھولپور اور میرا پور کی سیٹیں مانگ رہی تھی لیکن سماج وادی نے یہاں سے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کے بعد پارٹی کے ریاستی یونٹ نے اعلیٰ کمان کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ یہ دوہی سیٹیں ایسی تھیں جہاں سے کانگریس جیت سکتی تھی لیکن غازی آباد اور کیہر کی سیٹ بی جے پی کی روایتی سیٹیں ہیں اس لئے وہاں سے الیکشن لڑنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنے کی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ کانگریس نے سماج وادی پارٹی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کم از کم ۲؍ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دے جسے اکھلیش یادو نے پہلی فرصت میں تسلیم کرلیا اور پھولپور اور میرا پور سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس کے بعد کانگریس نے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
سماج وادی پارٹی نےشکریہ ادا کیا
کانگریس پارٹی کی جانب سے سماج وادی پارٹی کا مطالبہ تسلیم کرلئے جانے اورانڈیا اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوششوں پر سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ٹویٹ کرکے شکریہ بھی ادا کیا اور کہاکہ اب انڈیا اتحاد کا ایک ایک کارکن بی جے پی سے مقابلے میںہماری طاقت بنے گا اور وہ نتیجہ لائے گاجس سے بی جے پی کو دن میں تارے نظر آجائیں گے ۔