• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دہیسر شوٹ آئوٹ: مورس نے ابھیشیک کو ساڑیاں تقسیم کرنے کے بہانے بلایا تھا

Updated: February 10, 2024, 10:08 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

دونوں میں پرانی رنجش تھی، مقتول کی وجہ سے مورس ماضی میں جیل جاچکا تھا۔

Deceased Abhishek Ghosalkar. Photo: INN
مقتول ابھیشیک گھوسالکر۔ تصویر : آئی این این

بھیشیک گھوسالکر کے سنسنی خیز قتل کے بعد شیوسینا (ادھو) گروپ کے ایک رضاکار نے بیان دیا ہے کہ قاتل مورس نورنہا نے ابھیشیک کو عوام میں ساڑیاں تقسیم کرنے کے بہانے اپنے آفس پر بلایا تھا۔ اس دوران ممبئی پولیس نے کہا ہے کہ مورس نے حملہ میں جو پستول استعمال کی تھی اس کا لائسنس  پھول پور ضلع(یوپی) کی  پولیس نے جاری کیا تھا۔
قتل کی وجہ!
جمعرات کی شام ہونے والے قتل کی حتمی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم مختلف ذرائع سے یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ ابھیشیک گھوسلکر اور مورس کے درمیانی پرانی رنجش تھی اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ابھیشیک کی وجہ سے مورس کو جیل جانا پڑا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۰۲۲ء میں ایک ۴۸؍ سالہ خاتون نے مورس پر فریب دہی، عصمت دری اور بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اگرچہ عصمت دری کا معاملہ ۲۰۱۴ء کا تھا لیکن مورس کے خلاف کیس ۲۰۲۲ء میں درج کروایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت ابھیشیک نے مورس کیخلاف شکایت کنندہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس وقت مورس برطانیہ میں تھا جس کی وجہ سے اس کیخلاف ’لُک آئوٹ‘ نوٹس جاری کیا گیا تھا اور جب وہ ہندوستان واپس آیا تو ایئرپورٹ پر ہی اسے گرفتار کرلیا گیا تھا اور ضمانت ملنے تک اسے جیل میں رہنا پڑا تھا۔
سوشل میڈیا پر مورس خود کو انعام یافتہ سماجی رضاکار کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اس نے کووڈ کے دوران سماجی خدمات بھی انجام دی تھیں۔ اگرچہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں تھا لیکن اس کے مختلف سیاسی پارٹی کے بڑے لیڈران سے اچھے تعلقات تھے اور وہ میونسپل کارپوریشن کا الیکشن لڑنے کا بھی ارادہ رکھتا تھا۔ ابھیشیک شیوسینا کا سابق کارپوریٹر تھا لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ دونوں ایک ہی سیٹ سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے یا نہیں۔
مورس کا پیغام
 مورس نے ۲۹؍ جنوری کو سوشل میڈیا پرایک عجیب پیغام لکھا تھا کہ ’’تم ایسے شخص کو شکست نہیں دے سکتے جو درد،  شکست، بے عزتی، دل ٹوٹنے اور مسترد کردیئے جانے سے نہیں ڈرتا۔ مورس نے ابھیشیک کو اپنے دفتر پر بلایا تھا۔ اس کے دفتر جانے سے قبل ابھیشیک نے مورس کے علاقے میں مقیم اپنی پارٹی کے ایک ورکر لال چند پول کو اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ لال چند نے میڈیا میں جو بیان دیا ہے وہ یہ ہے کہ، ’’آئی سی کالونی بوریولی میں ہماری شاکھا ہے۔ شاکھا نمبر ایک ادھو بالا صاحب ٹھاکرے جس پر ابھیشیک شام تقریباً ۶؍ بجکر ۱۵؍ منٹ پر آئے۔ اس سے قبل دوپہر میں انہوں نے مجھے کال کرکے بتایا تھا کہ مورس کا کال آیا ہے۔ اسے کوئی پروگرام کرنا ہے، لوگوں میں ساڑی وغیرہ تقسیم کرنی ہے اور اس کو اپنے ساتھ (مل کر ساڑیاں) بانٹنا ہے۔ جس پر میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہو ویسا۔ اس پر ابھیشیک بھائی نے کہا کہ شام کو اپنے کچھ پارٹی ورکروں بشمول خواتین کو بلا لو تو ہم لوگ ساڑی وغیرہ جو ہوگا وہ تقسیم کردیں گے۔‘‘لال چند نے مزید کہا کہ جب شام تقریباً سوا ۶؍ بجے ابھیشیک آئے تو کچھ لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد وہ مورس کے آفس پر گئے۔ یہ دیکھ کر ہم بھی پیچھے پیچھے گئے۔ وہاں مورس نے ابھیشیک سر کو خوش آمدید کہا اور ہاتھ ملاکر دفتر کے اندر لے گیا۔ ہم بھی ان کے پیچھے آفس میں جانے لگے تو مورس نے کہا کہ معافی چاہتا ہوں آپ لوگ برائے مہربانی باہر ہی ٹھہریئے۔ اس پر ہم نے کہا کوئی بات نہیں ہم باہر ہی رُک گئے۔ یہاں سے میں نے بھائی (ابھیشیک) کو فون کیا لیکن بھائی نے فون نہیں اٹھایا تو ہم باہر ہی رہے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ہم لوگوں نے انتظار کیا۔ پھر مورس باہر آیا تو میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے، کون سا پروگرام کرنا ہے؟ بہت زیادہ تاخیر ہورہی ہے۔ اس پر مورس نے کہا کہ آپ ۵؍ منٹ رُکو، میہول آرہا ہے ٹیمپو میں ساڑیاں لے کر۔ اس کے تقریباً ۱۰؍ منٹ کے اندر میہول بھی وہاں پہنچ گیا، میں نے میہول سے پوچھا کہ کیا پروگرام ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔ تب مجھے کچھ جھٹکا لگا کہ کچھ الگ ہورہا ہے۔ پھر میں دروازہ کھول کر دفتر کے اندر گیا ابھیشیک سر کے پاس اور ان سے کہا کہ بھائی چلئے ہم لوگ اپنے آفس میں بیٹھتے ہیں۔ اس پر مورس اٹھ گیا اور مجھ سے کہا کہ ۵، ۱۰؍ منٹ ٹھہرو  ہم آرہے ہیں۔ جب انہوں نے ایسا کہا تو میں پھر باہر آگیا اور سڑک پر کھڑا ہوگیا۔ اس وقت یہاں کی بجلی چلی گئی۔ ۵؍ سے ۷؍ منٹ میں بجلی بحال ہوگئی اور پھر جیسے ہی میں سڑک پار کرکے دوسری طرف کھڑا ہوا توفائرنگ کی زوردار آواز آئی۔ آواز سن کر میں آفس کی طرف بھاگا لیکن آفس کے باہر ایک کٹ آئوٹ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے اسکے پیچھے آفس نظر نہیں آرہا تھا۔ اس پر میں کنارے سے دیکھنے کی کوشش کرنا لگا۔ فائرنگ کی وجہ سے شیشے کا دروازہ ٹوٹ گیا تھا اور اسی وقت ابھیشیک باہر آکر گھٹنوں پر گرگیا۔ اس وقت میں نے مورس کے ہاتھ میں ریوالور دیکھا جسے وہ ابھیشیک کی طرف تان کر کھڑا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا اور چیخ چیخ کر لوگوں کو بلایا، پھر پارٹی کارکنوں کی مدد سے رکشا بلاکر کسی طرح ابھیشیک سر کو اٹھایا اور کرونا اسپتال لے کر گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK