Updated: November 16, 2024, 10:20 PM IST
| Mumbai
ایک طرف ’’ووٹ جہاد‘‘ کا مفروضہ گھڑ کر اوراس کےمقابلےمیں ’’ ووٹوں کےدھرم یدھ‘‘ کا نعرہ دیا گیا اوربھگوا ووٹوں کو یکسو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو
دوسری طرف ریاست کے ۲۴؍ سے ۲۵؍ اسمبلی حلقوں میںسہ رخی اور چہار رُخی مقابلہ کے حالات پیدا کرکے سیکولر ووٹوں کوآزمائش میں ڈال دیا گیا ہے
اس الیکشن میں ووٹوں کے انتشار سے بچنے کیلئے مسلم ووٹرس پر بہت بڑی ذمہ داری ہے
مہاراشٹر اسمبلی کا موجودہ الیکشن جو شاید ریاست کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ الیکشن ہے، کو ہر گزرتے دن کے ساتھ فرقہ وارانہ خطوط پر موڑنے کی کوشش شدید ہوتی جارہی ہے۔ اکثریتی فرقہ کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کیلئے ’’بٹو گے تو کٹوگے‘‘اور ’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ ہی ’’ووٹ جہاد‘‘کا جو مفروضہ گھڑا گیاتھا اب اس کا حوالہ دیکر سابق وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس نے’’ووٹوں کے دھرم یدھ‘‘ کا نعرہ دیا ہے۔اس کے ذریعہ ایک طرف اکثریتی فرقہ کے ووٹوں کو مذہب کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف ۲۴؍ سے ۲۵؍ حلقوں میں ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں جن میں مسلم ووٹ تقسیم ہو جائیں اور براہ راست فائدہ فرقہ پرست طاقتوں کو پہنچے۔
مسلم ووٹوں کے لحاظ سے اہم اسمبلی حلقے
مسلم ووٹروں کو تقسیم کرنے کیلئے مسلم امیدواروں کا ہی سہارا لیا جارہاہے۔کلیریون انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کم از کم ۹؍ اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر ۴۰؍ فیصد سے زائد اور ۱۵؍ ایسی ہیں جہاں ۳۰؍ فیصد سے زائد ہیں۔اسی طرح ۳۸؍ اسمبلی حلقوں میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد مسلم ووٹر ہیں ۔ اسے تفصیل سے یوں دیکھا جاسکتاہے کہ مالیگاؤں سینٹرل میں ۷۸؍ فیصد، مانخورد شیواجی نگر میں ۵۳؍ فیصد، بھیونڈی ایسٹ میں ۵۱؍ فیصد، ممبا دیوی میں ۵۰؍ فیصد، بھیونڈی ویسٹ میں ۴۹؍ فیصد، امراؤتی میں ۴۶؍ فیصد، ممبرا کلوا میں ۴۳؍ فیصد، آکولہ ویسٹ میں ۴۱؍ فیصد، بائیکلہ میں ۴۱؍ فیصد، اورنگ آباد سینٹرل میں ۳۸؍ فیصد، اورنگ آباد ویسٹ میں ۳۷؍ فیصد، ورسوا میں ۳۳؍ فیصد، دھاراوی میں ۳۳؍ فیصد، باندرہ ایسٹ میں ۳۳؍ فیصد اور کرلا میں ۳۰؍ فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ یہ وہ سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹرفیصلہ کن رول ادا کر سکتا ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ووٹ منتشر نہ ہوں۔
سیکولر ووٹروں کو کنفیوژ کرنے کی دانستہ کوشش!
اس پس منظر میں موجودہ الیکشن میں امیدواروں پر نظر ڈالیں توایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر سیکولر ووٹروں کو کنفیوژ کرنے کیلئے ان کے سامنے متعدد امیدواروں کی شکل میں اتنے متبادل پیش کر دیئے گئے ہیں کہ وہ تقسیم ہوکر رہ جائیں۔ حالانکہ مہا وکاس اگھاڑی میں کانگریس نے ۹ ، این سی پی (شردپوار) نے ۲؍ اور شیوسینا نے ایک مسلم امیدوار دیا ہے تاہم ۲۸۸؍ رکنی اسمبلی کیلئے کل ۴۲۰؍ مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔ ان کی اکثریت ان ہی حلقوں میں ہے جہاں مسلم ووٹر خاطر خواہ تعداد میں ہیں۔ ورنہ ۱۵۷؍ حلقوں میں ایک بھی مسلم امیدوار نہیں ہے اور ۵۰؍ سیٹوں پر صرف ایک مسلم امیدوار ہے۔ ۲۳؍ سیٹوں پر ۳؍ اور ۵؍ سیٹوں پر ۵؍ مسلم امیدوار ہیں۔ سب سے زیادہ مسلم امیدوار اورنگ آباد ایسٹ میں ہیں جہاں ۲۹؍ امیدواروں میں سے ۱۷ـ؍ مسلم ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سینٹرل میں ۸، بھیونڈی مغرب میں ۱۱، مالیگاؤں سینٹرل میں ۱۲؍ اور مانخورد شیواجی نگر میں ۱۳؍ امیدوار اقلیتی فرقہ سے ہیں۔ ۴۲۰؍ میں سے ۲۱۸؍ مسلم امیدوار آزاد ہیں جبکہ ۱۶؍ کو ایم آئی ایم نے اتارا ہے ۔
زعفرانی اتحادکیلئے مسلم ووٹ!
اُدھر زعفرانی اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی بی جےپی تو مسلم مخالف بیانیہ کے ذریعہ اکثریتی ووٹوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کررہی ہے ،اس لئے اس نے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں دیا مگر اس کی اتحادی پارٹی این سی پی (اجیت پوار) جو سیکولر ووٹوں کو زعفرانی اتحاد کے حق میں ہموار کرنے کی ذمہ داری نبھا رہی ہے، نے ۵؍ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ کہیں این سی پی (شرد) اور این سی پی (اجیت) کے مسلم امیدواروں میں مقابلہ ہے تو کہیں سماج وادی اور این سی پی (اجیت )آمنے سامنے ہیں۔ کہیں کہیں ایم آئی ایم کا مسلم امیدوار بھی ہے۔ جن حلقوں میں مسلم ووٹوں کے انتشار سے نقصان کا خطرہ ہےان میں مانخورد-شیواجی نگر کے بعد اورنگ آباد، آکولہ، دھولیہ،ناندیڑ، انوشکتی نگر، بھیونڈی ویسٹ، ممبرا -کلوا، باندرہ ایسٹ، بائیکلہ اور دھاراوی قابل ذکر ہیں۔
اتفاق یا سازش
مسلم ووٹوں کا یہ انتشار اتفاق ہے یا کسی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے،اس کا اندازہ انتخابی ریلیوں میں زعفرانی پارٹی کے لیڈروں کی تقریروں سے لگایا جارہاہے۔