عام آدمی پارٹی نے جن ۲۲؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ان میں سے ۱۴؍ وہ ہیں جن میں مسلم ووٹرس کا اہم رول ہے، ۷؍ مسلم اکثریتی حلقوں میں سے ۶؍ میں ’آپ‘ کی جیت۔
EPAPER
Updated: February 10, 2025, 8:59 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi
عام آدمی پارٹی نے جن ۲۲؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ان میں سے ۱۴؍ وہ ہیں جن میں مسلم ووٹرس کا اہم رول ہے، ۷؍ مسلم اکثریتی حلقوں میں سے ۶؍ میں ’آپ‘ کی جیت۔
اس شکایت کے باوجود کہ عام آدمی پارٹی نے مسلم مسائل پر کبھی کھل کر بات نہیں کی اور اُس وقت جب قومی راجدھانی میں اقلیتوں کو اس کی حمایت کی ضرورت تھی، کبھی اُن کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی، دہلی میں اقلیتی ووٹرس نے ذمہ دارانہ ووٹنگ کا مظاہرہ کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اُن کی ترجیح ملک میں سیکولرازم اور جمہوری قدروں کا تحفظ ہے۔۷۰؍ رکنی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی ۶۷؍ سیٹوں سے گھٹ کر ۲۲؍ سیٹوں پر رہ گئی ہے مگر اِن ۲۲؍ سیٹوں میں سے ۱۴؍ سیٹیں وہ ہیں جن میں مسلم اور دلت ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے۔ ریاست کی ۷؍ مسلم اکثریتی سیٹوں پر ۶؍ میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار جیتے ہیں جبکہ مصطفیٰ آباد کی ایک ایک سیٹ پر ’آپ‘اور مجلس اتحاد المسلمین کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بی جےپی کامیاب ہوگئی۔
مسلم اکثریتی حلقوں کے نتائج
ایسے وقت میں جبکہ عام آدمی پارٹی کے کئی سینئر لیڈروں کو دھول چاٹنی پڑی، ۷؍ مسلم اکثریتی حلقوں چاندنی چوک،مٹیا محل، سیلم پور، بابر پور،اوکھلا ، بلی ماراں اور مصطفیٰ آباد میں ’آپ‘ کے امیدواروں نےبہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان میں سے صرف مصطفیٰ آباد اسمبلی حلقہ ایسا ہے جو عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بی جےپی کی جھولی میں چلا گیا ورنہ بقیہ ۶؍ سیٹیں ’آپ‘ کے حصے میں آئی ہیں۔ مصطفیٰ آباد سے عام آدمی پارٹی نے عدیل احمد خان کو امیدوار بنایاتھا جبکہ مجلس اتحاد المسلمین نے طاہر حسین کو ٹکٹ دیا تھا۔ طاہر حسین جو عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر ہیں، جیل سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ عام آدمی پارٹی نے انہیں دہلی فساد کیلئے ماخوذ کئے جانے کے بعد ان سے پلّہ جھاڑ لیاتھا۔ عدیل احمد خان نے ۶۷؍ ہزار ۶۳۷؍ ووٹ حاصل کئے جبکہ طاہر حسین نے ۳۳؍ ہزار ۴۷۴؍ ووٹ پائے، نتیجہ میں بی جےپی کے موہن سنگھ بِشٹ جیت گئے جنہیں ۸۵؍ ہزار ۲۱۵؍ ووٹ ملے۔ مصطفیٰ آباد کے اس استثنیٰ کو چھوڑ دیں تو اوکھلا جہاں مجلس اتحاد المسلمین نے دہلی فسا د کےملزم بنائے گئے شفاء الرحمٰن کو امیدوار بنایاتھا،وہاں عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان لگاتار تیسری بار کامیاب ہوئے۔ امانت اللہ خان کو ۸۸؍ ہزار ۹۴۳؍ ووٹ ملے جبکہ شفاء الرحمٰن کے حصے میں ۳۹؍ ہزار ۵۵۸؍ ووٹ آئے۔ دوسرے نمبر پر بی جےپی کے منیش چودھری رہے جنہیں ۶۵؍ ہزار ۳۰۴؍ ووٹ ملے۔
۴؍ مسلم اراکین اسمبلی کا انتخاب
اوکھلا سے امانت اللہ خان کے علاوہ مٹیا محل سے آل ِ محمد اقبال،سیلم پور سے چودھری زبیر احمد اور بلی ماران سے عمران حسین نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ان چاروں کا تعلق عام آدمی پارٹی سے ہی ہے۔ اس کے علاوہ دو حلقے چاندی چوک سے عام آدمی پارٹی کے پُنر دیپ سنگھ اور بابر پور سے گوپال رائے جیتے ہیں۔ یہ دونوں حلقے بھلے ہی مسلم اکثریتی نہیں ہیں مگر یہاںمسلم ووٹ فیصلہ کن رول اداکرتے ہیں۔
مجلس اتحاد المسلمین اور کانگریس کا رول
مسلم ووٹرس کے ووٹنگ پیٹرن پر گفتگو کرتے ہوئے دہلی کے ایک صحافی نے انقلاب سے گفتگو کے دوران اسے ایک جملے میں یوں مختصر کیا کہ ’’مسلمانوں کا دل کانگریس کے ساتھ تھا مگر دماغ ’آپ‘ کے ساتھ تھا۔‘‘ انہوں نےا س کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے بتایاکہ’’مسلمانوں کو بخوبی یادہے کہ اروند کیجریوال کی پارٹی نے دہلی فساد کے وقت ، اس سے قبل شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کے وقت اور مسلمانوں کے دیگر مسائل پر کیا رویہ اختیار کیا مگر وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دہلی میں بی جےپی کا مقابلہ ’آپ‘ ہی کرسکتی ہے اس لئے انہوں نے آپ کے حق میں ووٹنگ کی۔‘‘ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا سبب بننے کا الزام جھیلنے والے اسد الدین اویسی نے دہلی میں مسلمانوں کی اکثریت والی دو سیٹوں اوکھلا اور مصطفیٰ آباد پر اپنے امیدوار اتارے تھے۔ دونوں ہی جگہ ووٹرس نے انہیںمسترد کردیا تاہم مصطفیٰ آباد میں وہ بی جےپی کی کامیابی کی راہ ہموار کربیٹھے۔ تاہم مذکورہ صحافی نے بتایا کہ ’’کم از کم ۱۸؍ سیٹیں ایسی ہیں جن پربی جےپی کانگریس کی وجہ سے جیت گئی۔‘‘یعنی اگر کانگریس کا امیدوار نہ ہوتا اور مقابلہ براہ راست بی جےپی اور’آپ‘ میں ہوتا تو زعفرانی پارٹی کا نکلنا آسان نہ ہوتا۔اس ضمن میں دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کانگریس اور عام آدمی پارٹی آپس میں نہ لڑتیں تو آج یہ نتائج نہ ہوتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’مجلس اتحاد المسلمین پر الزام بلا وجہ لگتا ہے، اکثر فرقہ پرست عناصر کی جیت کی راہ خود سیکولر پارٹیاں ہموار کردیتی ہیں۔‘‘