سلمان رشدی کی متنازع کتاب The Satanic Verses کی درآمد پر پابندی عائد کرنے والا نوٹیفکیشن کا سراغ نہیں مل سکا۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے ’’غیرموجود‘‘ تصور کیا جانا چاہئے۔ عدالت کا یہ حکم ہندوستان میں کتاب کی درآمد کو ممکن بناتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 10:06 PM IST | New Delhi
سلمان رشدی کی متنازع کتاب The Satanic Verses کی درآمد پر پابندی عائد کرنے والا نوٹیفکیشن کا سراغ نہیں مل سکا۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے ’’غیرموجود‘‘ تصور کیا جانا چاہئے۔ عدالت کا یہ حکم ہندوستان میں کتاب کی درآمد کو ممکن بناتا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو کہا کہ مصنف سلمان رشدی کے ناول The Satanic Verses (دی سیٹانک ورسیس) کی درآمد پر پابندی کے نوٹیفکیشن کو غیر موجود تصور کیا جانا چاہئے۔ اس طرح ہائی کورٹ نے کسٹم ایکٹ کے تحت جاری مبینہ نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی درخواست نمٹا دی۔خیال رہے کہ یہ اس وقت سامنے آیا جب سینٹرل بورڈ آف بالواسطہ ٹیکس اور کسٹمز نے عدالت کو بتایا کہ ۱۹۸۸ء سے کتاب کی درآمد پر پابندی لگانے والی مبینہ ہدایت کا پتہ نہیں چل سکا۔ چونکہ حکام حکم پیش نہیں کر سکے، جسٹس ریکھا پلی اور سوربھ بنرجی کی بنچ نے یہ جانچنے سے انکار کر دیا کہ آیا پابندی درست ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں، ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے سوائے یہ ماننے کے کہ ایسا کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے، اور اس وجہ سے، ہم اس کی درستگی کی جانچ نہیں کر سکتے اور رِٹ پٹیشن کو بے نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔‘‘ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار مذکورہ کتاب کے حوالے سے تمام کارروائیاں کرنے کا حقدار ہوگا جیسا کہ قانون میں دستیاب ہے۔ اس طرح عدالت کا یہ حکم کتاب کی ہندوستان میں درآمد کی اجازت دینے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ درخواست سندیپن خان نامی شخص کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسے یہ ناول درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ سندیپن کے وکیل نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ نوٹیفکیشن کسی سرکاری ویب سائٹ یا سرکاری ریکارڈ میں نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے تصدیق ناممکن ہے۔ سندیپن کے کیس کو تقویت دینے کیلئے اس کی قانونی ٹیم نے معلومات کے حق کی درخواست پر ۲۰۱۷ء کے جواب کا حوالہ دیا، جس نے کتاب کی ممنوعہ حیثیت کی تصدیق کی لیکن اس میں اصل اطلاع شامل نہیں تھی۔ ٹیم نے ایک مختلف بنچ کے ۲۰۲۲ء کے حکم کا بھی حوالہ دیا جس میں دستاویز کا پتہ لگانے میں حکام کی نااہلی کو نوٹ کیا گیا تھا۔
واضح رہےکہ سلمان رشدی کی یہ کتاب مذہب، شناخت اور ثقافتی انحطاط کے موضوعات سے متعلق ہے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا کی جانب سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب، مصر اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں اس کتاب پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ فروری ۱۹۸۹ء میں، ایران کے سابق سپریم لیڈر، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کرکے سلمان رشدی کی موت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی کتاب کو توہین آمیز قرار دیا تھا۔ جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے رشدی برطانوی حکام کی سرپرستی میں تقریباً ایک دہائی تک روپوش تھا۔ اگست ۲۰۲۲ء میں ناول نگار پر نیویارک میں لیکچر دینے کی تیاری کے دوران حملہ کیا گیا۔ حملہ آور، ہادی ماتر، کے حملے میں رشدی کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔