دہلی ہائی کورٹ نے’’اے آئی ایم آئی ایم اراکین کے خود کو ایک سیاسی پارٹی کے طور پر تشکیل دینے‘‘ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کے مترادف قرار دیتے ہوئے درخواست کو مسترد کردیا۔
EPAPER
Updated: November 22, 2024, 7:06 PM IST | New Delhi
دہلی ہائی کورٹ نے’’اے آئی ایم آئی ایم اراکین کے خود کو ایک سیاسی پارٹی کے طور پر تشکیل دینے‘‘ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کے مترادف قرار دیتے ہوئے درخواست کو مسترد کردیا۔
دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رجسٹریشن اور اسکی سیاسی پارٹی کی شناخت ختم کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے اس درخواست کو’’اے آئی ایم آئی ایم ممبران کے خود کو ایک سیاسی پارٹی کے طور پر تشکیل دینے‘‘ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کے مترادف قرار دیا۔ دہلی ہائی کورٹ میں ۲۰۱۸ء میں غیر منقسم شیو سینا کے رکن تروپتی نرسمہا مُراری نے یہ پٹیشن دائر کی تھی اور انتخابی کمیشن کے ذریعے ایم آئی ایم کی سیاسی پارٹی کی شناخت ختم کرنے کی درخواست کی تھی۔ مراری نے اے آئی ایم آئی ایم کی شناخت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کے آئین میں ’’صرف ایک مذہبی برادری‘‘ (مسلمانوں) کو آگے بڑھانے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ یہ سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے جن پر ہر سیاسی جماعت کو ہندوستانی آئین اور عوامی نمائندگی قانون ۱۹۵۱ء کے تحت عمل پیرا رہنا چاہئے۔
جسٹس پرتیک جالان کی عدالت نے مراری کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ انتخابی کمیشن، کسی سیاسی جماعت کے رجسٹریشن کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس طرح، مراری کی درخواست، انتخابی کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم، عوامی نمائندگی قانون ۱۹۵۱ء کے سیکشن ۲۹؍ (الف) کے تحت درج قانونی شرائط کو پورا کرتی ہے، بشمول پارٹی کے آئینی دستاویزات کے مطابق وہ ہندوستانی آئین اور اس کے اقدار سوشلزم، سیکولرازم اور جمہوریت میں سچا ایمان اور ان کی وفادار ہے۔ واضح رہے کہ انتخابی کمیشن نے یکم جون ۱۹۹۲ء کو اے آئی ایم آئی ایم کی رجسٹریشن کی درخواست کو قبول کیا تھا اور ۲۰۱۴ء میں اسے تلنگانہ میں ریاستی پارٹی کا درجہ دیا تھا۔