Updated: May 07, 2024, 6:01 PM IST
| New Delhi
دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کے ایک معاملے میں ایک شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کو محض اس وجہ سے دہشت گرد گروپ کا رکن نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس کے موبائل فون میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی تصویرہے جبکہ یہ تمام چیزیں انٹر نیٹ پر عمومی طور پر موجود ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کے ایک معاملے میں ایک شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کو محض اس وجہ سے دہشت گرد گروپ کا رکن نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس کے موبائل فون میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی تصویرہے۔ جسٹس سریش کمار کیت اور جسٹس منوج جین کی ڈویژن بنچ عمار عبدالرحمٰن نامی شخص کی درخواست ضمانت پر سماعت کر رہی تھی، جسے قومی تحقیقاتی ایجنسی نے اگست ۲۰۲۱ءمیں گرفتار کیا تھا۔ ایجنسی نے الزام لگایا تھا کہ وہ دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے نظریے سےمتاثر ہوکر بنیاد پرست ہو گیا تھا، اور اس نے خلافت کے قیام کے لیے جنوبی وسطیٰ ایشیا میں دولت اسلامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہجرت کرنے کی مجرمانہ سازش کی تھی اور ہندوستان میں آئی ایس آئی ایس کی سر گرمیاں انجام دینے والا تھا۔
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے الزام لگایا کہ عبد الرحمٰن نے اسلامک اسٹیٹ سے متعلق ویڈیوز اور انسٹاگرام ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کیں جن میں اسکرین ریکارڈر کے آپشن کا استعمال کرتے ہوئے وحشیانہ قتل دکھایا گیا تھا۔ ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس کے موبائل فون پر بن لادن اور اسلامک اسٹیٹ کے جھنڈوں کی تصاویر ملی ہیں جو اس کی بنیاد پرست ذہنیت اور دہشت گرد گروپ کے ساتھ وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، ہائی کورٹ نے پیر کو کہا کہ صرف یہ اس کو ایسی دہشت گرد تنظیم کا رکن قرار دینے کیلئے کافی نہیں ہوگا، اس سے بھی ناکافی یہ کہنا ہوگا کہ وہ اس کے مقصد کو آگے بڑھانےکا کام کر رہا ہے۔ عدالت نے کہاکہ اس قسم کا مجرمانہ مواد، آج کے الیکٹرانک دور میں، ورلڈ وائڈ ویب پر آزادانہ طور پر دستیاب ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنا اور یہاں تک کہ اسے ڈاؤن لوڈ کرنا بھی اس بات کیلئے کافی نہیں ہوگا کہ اس نے خود کو ’(سلامک اسٹیٹ) سے منسلک کیا تھا۔ کوئی بھی متجسس ذہن اس طرح کے مواد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتا ہے۔
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے الزام لگایا تھا کہ رحمان نے قانون نافذ کرنے والے حکام کی جانب سے پتہ لگانے سے بچنے کیلئے فوری پیغام رسانی کی ایپلی کیشن ٹیلی گرام اور ویب براؤزر سفاری کو انسٹال کیا تھا۔ تاہم، بنچ نے کہا کہ یہ پبلک ڈومین میں دستیاب ہیں اور اس اکاؤنٹ کی بنیاد پر کوئی منفی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ عدالت نے کہاکہ بہترطور پریہ کہا جا سکتا ہے کہ، اپیل کنندہ انتہائی بنیاد پرست تھا اور اس نے داعش کے حامی مواد کو ڈاؤن لوڈ کیا تھا اور وہ مسلمانوں کےسخت گیر لوگوں تک رسائی حاصل کر رہا تھا لیکن یہ یو اے پی اے کی دفعہ ۳۸؍اور سیکشن ۳۹؍ کے اطلاق کیلئے کافی نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کی یہ دو دفعات کسی شخص کے دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے اور اسے مدد فراہم کرنے سے متعلق ہیں۔
بنچ نے رحمٰن کو ضمانت اس شرط پر دی کہ خصوصی عدالت اس کےمعاملے کی سماعت کرے گی۔ تاہم، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے مشاہدات تحقیق طلب تھے اور ضمانت دینے کے سوال تک محدود تھے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ یہاں اوپر دیئے گئے کسی بھی مشاہدے سے قائل نہیں ہو گا جو ظاہر ہے، معاملے کی خوبیوں کے بارے میں کوئی حتمی رائےنہیں ہے۔