Updated: June 19, 2024, 11:49 PM IST
| New Delhi
ایک ہزار صفحات کی چارج شیٹ میں ویڈیو اور فارینسک شواہد کی بنیاد پر الزامات طے کئے گئے، ۶؍ گواہوں کے بیانات بھی شامل لیکن سپریم کورٹ کی پابندی کی وجہ سےملک سے غداری کی دفعہ’ ۱۲۴؍ اے‘ کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ ’بوکر پرائز‘ یافتہ مصنفہ ہمیشہ سے ہی فاشزم اور فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
ملک کی معروف مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے کے گرد شکنجہ کسنے کی تیاری ہو رہی ہے
حکومتی ظلم ، فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف عالمی سطح پر سب سے توانا آوازوں میں سے ایک مشہور مصنفہ اروندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے بعد دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے چارج شیٹ تیار کرلی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اب اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ دہلی پولیس نے ۲۰۱۰ء میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں ان کے خلاف چارج شیٹ بھی تیار کرلی ہے جو اسی ہفتے عدالت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ ان کے ساتھ ہی پروفیسر شوکت حسین کیخلاف بھی چارج شیٹ تیار کرلی گئی ہے۔
اپنے شہرہ آفاق ناول ’گاڈ آف اسمال تھنگز ‘ کیلئےنوبیل انعام کے بعد ادب کا سب سے بڑا انعام’ بوکر پرائز ‘ جیتنے والی اروندھتی رائے کے خلاف ۲۱؍اکتوبر۲۰۱۰ء کو کوپرنیکس روڈ پر واقع ایل ٹی جی آڈیٹوریم میں آزادی سے متعلق منعقدہ ایک سمینار میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملک کی شمال مشرقی ریاست میگھالیہ کی راجدھانی شیلانگ میں پیدا ہونے والی مشہور مصنفہ اروندھتی رائے پسماندہ طبقات کیلئے آواز بلند کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ انہیں ملک میں ہر طرح کی شدت پسندی اور فاشزم کے خلاف جدو جہد کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے ماضی میں کئی موقعوں پر قبائلیوں ، ایس سی ، ایس ٹی اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف حکومتی جبر کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ کسی بھی احتجاج میں اروندھتی رائے کا شامل ہوجانا اس کی اہمیت کو دوبالا کردیتا ہے اور حکومت بھی نوٹس لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر حکومتی عتاب کے نشانے پر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۴ءمیں مودی حکومت قائم ہونے کے بعد سے وہ کافی سرگرم ہو گئی ہیں اورسرکار کی اقلیت مخالف پالیسیوں، ہجومی تشدد اور بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف ہمیشہ میدان میں ڈٹ کر کھڑی رہی ہیں۔وہ مودی حکومت کے خلاف یہ بیان دے چکی ہیں کہ ’’ہندوستان میں ۲۰۱۴ء کے بعد سے خالص فاشزم کی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔ اس کے خلاف جو بھی مزاحمت کرے گا اس کیلئے پورا امکان ہے کہ اس کی کردار کشی کی جائے گی، ٹرول کیا جائے گا، جیل بھیجا جائے گا یا اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جائے گا لیکن اس کے خلاف مزاحمت تو بہرحال ہوگی۔‘‘ ان کا ناول جس کیلئے انہیں ’بوکر پرائز ‘ سے نوازا گیا ملک میں ذات پات کے نظام پر شدید طنز ہے۔ساتھ ہی انسانی رویوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے اثرات کا مکمل جائزہ بھی ہے۔اس ناول کی پوری دنیا میں پذیرائی ہو چکی ہے۔
یاد رہے کہ دہلی کے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم کے بعد کشمیر کے دائیں بازو کے سماجی کارکن سشیل پنڈت کی شکایت پر تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی ۔ بعد میں کیس کو مزید تفتیش کیلئے دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا۔شکایت کنندہ سشیل پنڈت نے الزام لگایا ہے کہ جس موضوع پر کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا اور تقاریر ہوئی تھیں وہ کشمیر کو ہندوستان سے مبینہ طور پر علاحدہ کرنے کے موضوعات تھے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ تقاریر اشتعال انگیز نوعیت کی تھیں جس سے عوامی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے ۶؍ سے زائد گواہوں کے بیانات کا حوالہ دیا ہے۔ پولیس نے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تقاریر کی ویڈیوس کی فارینسک رپورٹ بھی اپنی چارج شیٹ میں شامل کی ہے۔